عمران خان کا جیل سے پیغام: نظر بندی کے عوض سودے بازی نامنظور، جمہوریت خطرے میں، دنیا جاگے۔ ٹائم میگزین

عمران خان کا جیل سے پیغام: مجھے گھر میں نظر بندی کی پیشکش کے بدلے پی ٹی آئی کو مبہم 'سیاسی گنجائش' دینے کا کہا گیا، جسے میں نے مسترد کر دیا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بقا کی جنگ جاری ہے۔ عالمی برادری کو آگے بڑھ کر اس بحران کو روکنا ہوگا، کیونکہ ایک غیر مستحکم پاکستان پورے خطے کے امن اور عالمی جمہوری اقدار کے لیے خطرہ ہے۔

نیویارک (تھرسڈے ٹائمز) — تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل راولپنڈی سے امریکی جریدہ ٹائم میگزین کیلئے لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں کہا ہے کہ ہم جب 2025 میں داخل ہو چکے ہیں تو میں پچھلے عرصے کو پاکستان کی تاریخ کے ایک نہایت ہنگامہ خیز اور کڑی آزمائش والے دور کے طور پر یاد کرتا ہوں۔ اپنی تنہائی کی کوٹھڑی سے میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا وطن کس طرح آمرانہ طرزِ حکومت کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کے باوجود میں پاکستانی عوام کے عزم اور انصاف کے لیے اُن کی غیر متزلزل جدوجہد پر پُر امید ہوں۔

عمران خان نے لکھا ہے کہ مجھ پر لگائے گئے سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات دراصل مجھے جمہوریت کی خاطر جدوجہد سے روکنے کی کوشش ہے۔ لیکن یہ جنگ صرف میری ذات تک محدود نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ دوررس اثرات رکھتا ہے۔ ایک غیر مستحکم پاکستان خطے کے امن کو متاثر کرسکتا ہے، تجارت میں خلل ڈال سکتا ہے اور عالمی جمہوری اقدار کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا کو اس بحران کی شدت کا ادراک کرنا چاہیے یہ صرف پاکستان کے مستقبل کا معاملہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے استحکام کا مسئلہ ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوری آوازوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہو اور جو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے نہایت اہم ہو، آمرانہ رویوں کا پھیلنا نہایت خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال ہر اُس شخص کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے جو آزاد اور منصفانہ طرزِ حکومت پر یقین رکھتا ہے۔

گزشتہ سال بے مثال جبر کی علامت بن کر سامنے آیا۔ میری سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے حامیوں کے خلاف خوفناک کریک ڈاؤن نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ نے ماورائے قانون حراستوں اور فوجی عدالتوں میں سیاسی بنیادوں پر مقدمات چلانے کی نشاندہی کی ہے۔ اب تک 103 پی ٹی آئی کارکنان اور عہدے داروں کو ان فوجی عدالتوں سے سزا سنائی جا چکی ہے۔ یہ اقدام پاکستان کی اُن بین الاقوامی انسانی حقوق کنونشنز کے تحت ذمّہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، جن میں عالمی میثاق برائے شہری اور سیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) بھی شامل ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکا سمیت عالمی برادری نے ان مقدموں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ان اقدامات کا سب سے زیادہ نقصان عام پاکستانیوں کو پہنچ رہا ہے۔ پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے حاصل ترجیحی تجارتی درجے کے خاتمے کا خدشہ ہے جو ہماری معیشت، خاص طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں برسرِ اقتدار قوتیں بے بنیاد بیانیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے نہ صرف میری بلکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر ملک کے مفادات کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔

دنیا کو اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب پاکستان کے اندر جمہوریت کمزور ہوتی ہے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے علاقوں میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ سب محض اتفاق نہیں۔

پاکستان کی فوجی قیادت نے ان سنگین سیکیورٹی خدشات کے تدارک کے بجائے اپنی توانائیاں سیاسی مخالفین جیسا کہ پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں جھونک دی ہیں۔ عدلیہ، جسے انصاف کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہونا چاہیے تھا، آج مجھے ایک ایسے آلے کی طرح نظر آتی ہے جسے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں اب پی ٹی آئی کے حامیوں سے بھری ہوئی ہیں، جن پر مضحکہ خیز الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

گھرانوں پر چھاپے مارے گئے، خاندانوں کو خوفزدہ کیا گیا، یہاں تک کہ خواتین اور بچوں تک کو بھی اس جبروتشدد سے نہیں بخشا گیا۔ ہمارے سوشل میڈیا رضاکاروں، بیرونِ ملک آباد حامیوں اور کارکنوں کے خاندانوں کو ہراساں اور اغوا کیا گیا تاکہ آوازِ اختلاف کو خاموش کرایا جاسکے۔ میری جماعت کے ریکارڈ کے مطابق، اسلام آباد میں نومبر کے آخر میں ہونے والے حکومت مخالف احتجاج کے دوران سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ہمارے 12 حامی جاں بحق ہوئے۔

اگرچہ مجھے موجودہ قیادت پر شدید تحفظات ہیں اور اس انتخاب کے بارے میں بھی الزامات سامنے آئے جس کے تحت یہ حکومت وجود میں آئی، پھر بھی میں نے پی ٹی آئی قیادت کو ہدایت کی کہ موجودہ حکومت سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ مزید تشدد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جائے۔

ہمارا ایجنڈا واضح تھا: ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور نہتے مظاہرین پر حملوں کی تحقیقات کرے۔ ہم نے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

اس کے جواب میں مجھے گھر میں نظر بندی کی پیشکش کی گئی اور اس کے بدلے میں پی ٹی آئی کو مبہم قسم کی ’’سیاسی گنجائش‘‘ دینے کا عندیہ تھا، جسے میں نے صاف مسترد کر دیا۔

دریں اثنا پارلیمان کو ایسی قانون سازی پر مجبور کیا جاتا رہا جس کا مقصد عدلیہ کی آزادی محدود کرنا، آزاد اظہارِ رائے کو دبا دینا اور اختلافی آوازوں کو مجرم ٹھہرانا تھا۔ کوئی بھی سیاسی اختلاف اب ’’دشمنیِ ریاست‘‘ قرار پاتا ہے جس کی سزا جبری گمشدگی سے لے کر سخت ترین انسدادِ دہشت گردی قوانین تک رکھی گئی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا آخری نشان بھی تقریباً مٹتا جا رہا ہے۔

پارلیمان کے علاوہ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف ملکی دستور کی رو سے فوج کی آئینی حدود کا احترام کریں۔ اسی راستے پر چل کر پاکستان ایک حقیقی جمہوری نظام میں ترقی کر سکتا ہے— ایک ایسا نظام جسے عوام نے منتخب کیا ہو اور جو عوام کے لیے ہو۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ آمرانہ ادوار عارضی ثابت ہوئے ہیں، لیکن وہ زخم جو انہوں نے لگائے، نسلوں تک نہیں بھولتے۔ ہمارے ملک کا مستقبل جمہوریت کے فروغ سے وابستہ ہے، نہ کہ اسے دبانے سے۔

ان گھٹن زدہ حالات کے باوجود پاکستانی عوام پہلے سے کہیں زیادہ بیدار اور باخبر ہیں۔ وہ جھوٹ کو پہچان چکے ہیں اور انہی کا حوصلہ میری امید کا سرچشمہ ہے۔ انصاف اور عزت کی جنگ آسان نہیں، لیکن یہ لڑنا ضروری ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سچ کی فتح ہوگی۔ ہم مل کر ایک ایسا پاکستان دوبارہ تعمیر کریں گے جہاں شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور جمہوریت کو بحال کیا جائے۔

پاکستان سے باہر، دنیا بھی ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ عالمی چیلنجز تنازعات سے لے کر معاشی عدم استحکام تک تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اس دوران مضبوط اور اصول پسند قیادت کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ اسی تناظر میں میں جنوری میں حلف اٹھانے پر صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی سیاست میں شاندار واپسی عوام کی طاقت اور مزاحمت کا ثبوت ہے۔

اپنے سابقہ دورِ صدارت میں امریکا اور پاکستان کے درمیان باہمی احترام پر مبنی مضبوط تعلقات قائم رہے۔ جیسے ہی وہ دوبارہ اقتدار سنبھال رہے ہیں، مجھے امید ہے کہ ان کی حکومت جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے اپنی وابستگی کو ثابت کرے گی— خاص طور پر ان خطوں میں جہاں آمرانہ حکومتیں ان اقدار کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ایک جمہوری اور مستحکم پاکستان بین الاقوامی برادری کے مفاد میں ہے اور ہم اس توازن کی بحالی کے لیے کوشاں رہیں گے۔

علاوہ ازیں، میں صدر ٹرمپ کی حکومت پر زور دوں گا کہ وہ ایسی اقتصادی شراکت داریوں کو مضبوط کرے جن سے پاکستان جیسے ممالک کو پائیدار معیشتیں کھڑی کرنے میں مدد مل سکے۔ منصفانہ تجارتی پالیسیوں، اہم شعبوں میں سرمایہ کاری اور علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے کا عزم ہی وہ طریقہ ہے جس سے خوشحالی کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور تنازعات و انتہا پسندی کی وجوہات کو روکا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی قیادت کا یہ نیا باب اِن اہم اُمور میں بامعنی شمولیت کا باعث بنے گا اور امن و ترقی کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔

ہم آگے بڑھ رہے ہیں تو مجھے اپنے پاکستان کے مستقبل کا پورا یقین ہے ایک ایسا ملک جو انصاف، مواقع اور مساوات کی بنیادوں پر کھڑا ہو۔ آگے کا راستہ بے حد مشکل سہی، لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے عوام اپنی ثابت قدمی اور اتحاد سے ان چیلنجز پر قابو پالیں گے۔ ہم مل کر ایک تابناک مستقبل کی تشکیل کریں گے جو آنے والی نسلوں کے لیے امید اور ترقی کا پیغام لے کر آئے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: