واشنگٹن، ڈی سی (تھرسڈے ٹائمز) — صدر ٹرمپ نے منگل کی رات کانگریس سے اپنے خطاب کے دوران ایک غیر متوقع طور پر پاکستان کا ذکر کیا، جب انہوں نے پاکستانی حکومت کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کابل ایئرپورٹ پر 2021 میں ہونے والے حملے کے مشتبہ منصوبہ ساز کی گرفتاری پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے انتہائی خطرناک دہشت گرد کی گرفتاری کے بیان نے پاکستان میں امیدیں پیدا کر دی ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر مضبوط ہوسکتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کیمطابق اس پیش رفت کے سیاسی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کو امید تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالے گی، خاص طور پر اس وقت جب ٹرمپ کے قریبی اتحادیوں نے ان کے حق میں بیانات دیے تھے۔ تاہم، صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستانیموجودہ پاکستانی حکومت کی عمران خان کے لیے بیرونی حمایت کی امیدیں کم کردے گی اور انکے حامیوں کی امیدیں امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔
اس حملے میں 13 امریکی فوجی اہلکار اور درجنوں افغان شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اس گرفتاری کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں تعاون مضبوط ہوسکتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان اپنے سرحدی علاقوں میں دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کے خلاف عالمی معاونت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
امریکی اخبار کیمطابق پاکستان کی سرحدوں سے باہر، امریکہ کے 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد خطے کے حالات بدل گئے ہیں۔ طالبان حکومت اور اس سے منسلک یا مخالف عسکری گروہوں کی وجہ سے افغانستان میں شدت پسندوں کا قدم جم رہا ہے، جبکہ پاکستان چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کے باعث امریکی امداد سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
نیویارک ٹائمز کیمطابق پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کو سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے خطے میں پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو سراہا۔ پاکستانی اور امریکی حکام کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں، جن کی مدد سے افغان شہری محمد شریف اللہ (داعش خراسان سے منسلک) کو پکڑا گیا۔ شہباز شریف کے مطابق یہ کامیاب آپریشن پاک افغان سرحدی علاقے میں کیا گیا، تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ ملزم کو کہاں گرفتار کیا گیا۔
طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے اندر داعش خراسان کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گروہ پاکستان میں اپنے ٹھکانے رکھتا ہے۔
نیویارک ٹائمز کیمطابق اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک دی خراسان ڈائری کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ محمد شریف اللہ 2016 میں داعش خراسان میں شمولیت کے بعد سے افغانستان میں درجنوں حملوں میں شامل رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اشرف غنی کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے دور میں گرفتار ہوا لیکن 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد جب جیلوں سے ہزاروں عسکریت پسندوں کو چھڑایا گیا تو یہ بھی رہا ہوگیا۔
امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں محمد شریفع اللہ پر ماسکو کے نواح میں 2023 میں ہونے والے ایک حملے میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا، جس میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حکام کے مطابق بدھ کو اسے امریکہ منتقل کیا گیا اور اس پر دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کیمطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ کم از کم داعش خراسان جیسے باہمی خطرات کے خلاف امریکہ اور پاکستان کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ تعاون پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔
نیویارک ٹائمز نے مزید لکھا کہ امریکی تعریف کے باوجود پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ صرف خالی شکریے پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) جیسی مخالف تنظیموں کے خلاف اشتراکِ عمل چاہتی ہے۔ پاکستانی رہنماؤں کا الزام ہے کہ افغانستان میں موجود طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہی ہے اور اس گروہ کو سرحد پار حملوں کی اجازت دیتی ہے، تاہم کابل میں موجود طالبان عہدیدار اس سے انکار کرتے ہیں۔
امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے سینیئر فیلو سدانند دھومے نے سوشل میڈیا پر کہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر سیاسی میدان میں برتری حاصل کرلی ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کے فوجی حکام اب بھی واشنگٹن سے تعلقات کو اپنے حق میں بہتر کرسکتے ہیں۔