بیجنگ (تھرسڈے ٹائمز) — چین نے امریکہ کے ساتھ جاری معاشی جنگ میں سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی درآمدات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ 10 اپریل سے نافذ ہونے والا یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں چینی مصنوعات پر “لبریشن ڈے” پالیسی کے تحت عائد کردہ 34 فیصد محصولات کا براہِ راست جواب ہے، جس کے باعث دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان تناؤ نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
امریکہ اور چین کی معاشی جنگ میں شدت
چینی حکومت کا تازہ فیصلہ بالکل امریکہ کی جانب سے نافذ کردہ ٹیرف کے مساوی ہے، جو واضح طور پر اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ بیجنگ امریکہ کے اقدامات کا فوری اور مؤثر جواب دینے میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتے گا۔ دونوں ممالک اب اقتصادی تنازعات کے ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جس کے جلد خاتمے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔
چین کی اسٹریٹجک برتری: نایاب معدنیات
ٹیرف عائد کرنے کے علاوہ چین نے ہائی ٹیک صنعتوں کے لیے لازمی نایاب معدنیات کی برآمدات پر پابندیاں مزید سخت کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ یہ معدنیات کمپیوٹر چپس، الیکٹرک گاڑیوں اور جدید فوجی سازوسامان کی تیاری میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں چین کی اس شعبے میں بالادستی اس کے لیے ایک مضبوط ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے، جس کے ذریعے وہ عالمی سپلائی چین کو متاثر کر سکتا ہے۔
امریکی کمپنیوں پر پابندیاں عائد
چینی حکومت نے امریکہ کی 27 بڑی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے پابندیاں اور تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اس اقدام سے ان کمپنیوں کی چین کے ساتھ تجارت اور کاروباری معاملات شدید طور پر متاثر ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کا یہ فیصلہ امریکی کاروباری اداروں کے لیے پریشان کن ہے اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔
عالمی تجارتی تنظیم میں قانونی جنگ
چین نے محصولات کے معاملے پر امریکہ کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں قانونی چارہ جوئی کا آغاز کردیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس مقدمے کے فوری نتائج تو شاید محدود ہوں مگر اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین عالمی سطح پر امریکہ کی تجارتی پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرے گا۔
عالمی معیشت پر گہرے اثرات کا خدشہ
امریکہ اور چین کے درمیان اس بڑھتی ہوئی معاشی کشیدگی کے اثرات عالمی منڈیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔ اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس تنازعے کے طول پکڑنے سے سرمایہ کاری کے عالمی رجحانات متاثر ہوسکتے ہیں اور بین الاقوامی منڈیوں میں عدم استحکام بڑھنے کا امکان ہے۔