اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بھارت کو واضح اور دوٹوک پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور اور مؤثر جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو پاکستان کے خلاف مہم جوئی یا ایڈونچر کی خام خیالی ہے تو وہ اسے فوراً ذہن سے نکال دے، کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی اور میزائلی قوت ہے اور اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا بخوبی جانتا ہے۔
سینیٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کا الزام پاکستان پر ڈالنے، سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے، اور ایسی کسی بھی کارروائی کو جنگ کے مترادف قرار دینے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ قرارداد خود اسحاق ڈار نے ایوان میں پیش کی۔
وزیر خارجہ نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو عالمی قوانین، خاص طور پر ورلڈ بینک کی ضمانت کی روشنی میں ناقابل قبول قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی 24 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی کا انحصار ہے، اور قومی سلامتی کمیٹی بھی واضح کر چکی ہے کہ پانی بند کرنا عملی طور پر اعلانِ جنگ ہو گا۔ سندھ طاس معاہدے کو صرف باہمی اتفاق رائے سے ختم کیا جا سکتا ہے، یکطرفہ طور پر نہیں۔
اسحاق ڈار نے سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ 26 ممالک کو پاکستان کی پوزیشن پر تفصیلی بریفنگ دی جا چکی ہے، اور آج مزید ممالک کو آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ سعودی وزیرِ خارجہ سے شام سات بجے ایک اہم رابطہ طے پایا ہے۔
بھارت کی جانب سے اٹاری بارڈر بند کیے جانے پر پاکستان نے واہگہ بارڈر بند کر دیا ہے، جبکہ بھارتی ہائی کمیشن میں موجود دفاعی اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تجارتی روابط بھی معطل کر دیے ہیں۔
خطے کی جغرافیائی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث سارک جیسی اہم علاقائی تنظیم غیر فعال ہو چکی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ امن اور ترقی کے لیے بھارت کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن، ترقی اور باہمی تعاون کا حامی ہے، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ ہمسایہ ملک جارحانہ رویے ترک کرے۔
پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ خطے میں امن کے لیے بات چیت اور سفارتکاری ہی واحد راستہ ہے، لیکن اگر قومی خودمختاری کو چیلنج کیا گیا تو پاکستان ہر سطح پر اس کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت اور عزم رکھتا ہے۔