نئی دہلی (تھرسڈے ٹائمز) — بھارتی آرمی چیف جنرل اپندر دیویدی کا چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان کو لکھا گیا خط بھارتی مسلح افواج کے اندر پائی جانے والی حالیہ بے چینی کا آئینہ دار ہے۔ خط میں سینیئر فوجی تقرریوں اور ریٹائرمنٹ کے عمل میں شفافیت کی کمی اور اس کے اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس نے دفاعی اداروں میں اعتماد کے بحران اور اندرونی محاذ پر بڑھتے اضطراب کو نمایاں کر دیا ہے، جو کہ دشمن ریاستی عناصر کے لیے ایک سنہری موقع بن چکا ہے۔
جنرل دیویدی کا غیر معمولی خط
جنرل اپندر دیویدی کا خط نہایت غیر معمولی ہے — ایک سینیئر فوجی افسر کا دوسرے حاضر سروس اعلیٰ عہدے دار کو براہِ راست خط لکھنا اور ادارہ جاتی فیصلوں پر سوال اٹھانا نہ صرف فوجی روایتوں سے ہٹ کر ہے، بلکہ یہ اندرونی سطح پر موجود بے چینی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ خط میں خاص طور پر لیفٹیننٹ جنرل ایم وی سچندرا کمار کی ریٹائرمنٹ، اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کی تقرری کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ’طے شدہ‘ قرار دیا گیا، مگر اس کی ٹائمنگ اور خاموش عمل درآمد نے کئی سوالات کو جنم دیا۔
ہوائی اور انٹیلیجنس ونگ میں غیر واضح تبادلے
ایئر مارشل سوجیت پشپاکر دھارکر کی ایئر سٹاف کے نائب سربراہ کے طور پر اچانک ریٹائرمنٹ، اور لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس رانا کا ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی سے اینڈامن اینڈ نکوبار کمانڈ کی طرف تبادلہ بھی اسی عدم شفافیت کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جب اعلیٰ ترین درجے پر ایسے فیصلے بغیر وضاحت یا باقاعدہ پریس بریفنگ کے نافذ کیے جائیں تو نہ صرف افسران بلکہ پوری فورس میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔
داخلی اضطراب اور بیرونی فائدہ
یہ اب محض داخلی معاملہ نہیں رہا۔ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر جیسے پاکستانی ادارے ان تبدیلیوں کو بھارتی افواج کے اندرونی انتشار کے طور پر پیش کر کے عالمی سطح پر پروپیگنڈا کو تقویت دے رہے ہیں۔ حالیہ سیاسی و فوجی تبصروں میں ان اداروں نے ان فیصلوں کو بھارتی فوج میں ‘گروہی سیاست’، ‘نااہلی’ اور ‘منتخب عہدوں پر اپنے لوگوں کو لانے کی مہم’ کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔
خاموشی اور غیر واضح پالیسی کا بحران
بھارتی وزارتِ دفاع یا خود چیف آف ڈیفنس سٹاف کی جانب سے اب تک ان تبدیلیوں پر کوئی تفصیلی وضاحت یا بریفنگ نہیں دی گئی، جو کہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب بیرونی خطرات اور داخلی ہم آہنگی دونوں چیلنج کی صورت اختیار کر چکے ہیں، ادارے کے اندر عدم شفافیت کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ قیادت کے فیصلے اگر واضح اور ادارہ جاتی فریم ورک کے تحت نہ ہوں، تو وہ افسران کے اعتماد کو متزلزل کرتے ہیں۔
افسران کے درمیان اعتماد کا فقدان
خط کے متن سے صاف ظاہر ہے کہ محض قیادت کے فیصلے نہیں بلکہ ان فیصلوں کی نوعیت، وقت اور انداز پر بھی گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔ جنرل دیویدی نے اپنے خط میں واضح طور پر کہا ہے کہ ان تبدیلیوں نے “اندرونی مباحث کو جنم دیا ہے” اور فوج کے اندر موجود “حوصلے اور اتحاد” کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ الفاظ کسی بھی کمانڈر سے غیر معمولی اور خطرے کی گھنٹی کے طور پر لیے جا سکتے ہیں۔
مطالبہ برائے شفاف اور مربوط پالیسی
جنرل دیویدی کا مطالبہ ہے کہ مستقبل کی تقرریاں اور ریٹائرمنٹ واضح اور شفاف طریقے سے کی جائیں تاکہ افسران اور عوام دونوں کو وضاحت ملے۔ ساتھ ہی، وہ چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت افرادی انتظامات کی پالیسی پر ازسرِ نو غور کرے تاکہ تمام فیصلے مشاورت اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے ساتھ ہوں — نہ کہ بند کمروں میں طے پائیں۔
ادارہ جاتی سیاست یا فیصلہ سازی کی خامی؟
یہ سوال اب شدت اختیار کر چکا ہے کہ آیا یہ سب کچھ منظم پالیسی کے تحت ہو رہا ہے یا پھر مخصوص گروہ اور افراد ادارہ جاتی فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ فوج جیسے ادارے میں جہاں ہر فیصلہ جانوں اور قومی سلامتی سے جڑا ہوتا ہے، وہاں تقرریاں اور ریٹائرمنٹ صرف انتظامی فیصلے نہیں بلکہ سیاسی اور اسٹریٹجک پیغامات ہوتے ہیں۔