اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — تھرسڈے ٹائمز کی تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ فرانسیسی ایروسپیس کمپنی ڈاسو ایوی ایشن نے صرف پانچ تجارتی دنوں میں اپنی مارکیٹ کی قدر میں ایک ارب یورو سے زائد کا نقصان اٹھایا ہے، جبکہ اس گراوٹ کی بنیاد اُس لمحہ پڑی جب پاکستان نے سرِعام اس رافیل جنگی طیارے کو تباہ کر دیا جس کو برسوں تک بھارت کی فضائی برتری کی علامت سمجھا جاتا رہا۔ اگرچہ مارکیٹ کا یہ ردعمل بظاہر تکنیکی دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت یہ ڈاسو ایوی ایشن کی اعلیٰ ترین پیداوار سے متعلق سرمایہ کاروں کی تشویش، تزویراتی ادراک اور اسلحہ جاتی سیاست کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔
گزشتہ ہفتے کے سٹاک ڈیٹا کے مطابق ڈاسو کے حصص کی قیمت 5 مئی (سوموار) کو 328 یورو سے کم ہو کر 9 مئی (جمعرات) کو 314 اعشاریہ 60 یورو تک پہنچ گئی، یعنی 4 اعشاریہ 09 فیصد فیصد کمی یا فی حصص 13 اعشاریہ 40 یورو کی گراوٹ سامنے آئی۔ تھرسڈے ٹائمز نے کمپنی کی موجودہ مارکیٹ قدر 24 اعشاریہ 75 یورو ارب کی بنیاد پر تخمینہ لگایا ہے کہ ڈاسو کے کل حصص کی تعداد تقریباً 78 اعشاریہ 68 کروڑ ہے جس کا حساب کچھ یوں ہے:
مارکیٹ کیپٹلائزیشن = حصص کی قیمت × حصص کی تعداد
بمطابق 78 اعشاریہ 68 ملین = 24 اعشاریہ 75 بلین یورو / 314 اعشاریہ 60 یورو
اسی تخمینے کو گزشتہ ہفتے کی قیمت یعنی 328 یورو پر لاگو کرتے ہوئے 5 مئی کو ڈاسو کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن تقریباً 25 اعشاریہ 81 ارب یورو بنتی ہے۔ نتیجتاً صرف پانچ دنوں میں کمپنی کو تقریباً 1 اعشاریہ 06 ارب یورو کی قدر کا نقصان ہوا۔
اس مالیاتی نقصان کا اصل سبب محض مارکیٹ کے مسائل نہیں بلکہ ایک گہرا جغرافیائی سیاسی علامتی جھٹکا تھا۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے 5 مئی کو سرکاری طور پر اعلان کیا کہ وہ اب بھارت کے زیرِ استعمال رافیل طیاروں کو کسی ’’حقیقی خطرہ‘‘ کے طور پر نہیں دیکھتی اور حالیہ فضائی مشقوں میں اسے ’’نظریاتی تضاد‘‘ کا شکار قرار دیا۔ اگرچہ کوئی براہِ راست جھڑپ پیش نہیں آئی لیکن اس بیان کو ایشیائی دفاعی تجزیہ کاروں نے بھرپور انداز میں اجاگر کیا جس سے ڈاسو کی بین الاقوامی ساکھ پر کاری ضرب لگی۔
رافیل طیاروں کے بھارت کے ساتھ معاہدہ کو ایک طویل عرصہ تک جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کے ضامن کے طور پر پیش کیا جاتا رہا، ایک ایسا ہتھیار جو پاکستان کے چینی ساختہ اور مقامی طور پر تیار کردہ طیاروں کے مقابلہ میں ’’برتری‘‘ کا مظہر تھا لیکن اسلام آباد کی جانب سے اس (رافیل طیارہ) کو کھلے عام مسترد کیے جانے کے بعد سرمایہ کار اب اس کے بین الاقوامی اثرات کو سنجیدگی سے دیکھنے لگے ہیں۔
اگرچہ فوری طور پر موجودہ معاہدوں پر اثر نہ ہونے کے برابر ہے تاہم دفاعی مارکیٹ میں ادراک ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ڈاسو جیسی برآمد پر انحصار کرنے والی کمپنیز ساکھ، انفرادیت اور ٹیکنالوجیکل برتری سے اپنا مقام قائم رکھتی ہیں۔ جب کوئی علاقائی حریف کسی ایسے مہنگے ہتھیار کی سٹریٹجک اہمیت کو سرِعام مسترد کرتا ہے، خاص طور پر رافیل طیاروں جیسی اہم پراڈکٹ کو، تو اس کی گونج سرمایہ کار کمیٹیز، بجٹ فورمز اور عالمی دفاعی نیلامیوں میں سنائی دیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سٹاک گراوٹ کا وقت بھی بہت اہم ہے کیونکہ فرانس اور یورپی یونین میں ایسے دفاعی لین دین پر نظرِثانی کے مطالبات میں شدت آتی جا رہی ہے جو متنازع علاقوں سے متعلق ہوں۔ اگر موجودہ سیاسی تناؤ کے ماحول میں بھارت کی خریداری پالیسی میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو ڈاسو کو مزید ضوابطی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مزید برآں، دفاعی ٹھیکیداروں کیلئے بیانیہ پر گرفت بےحد اہم ہوتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے کھلے عام انکار پر ڈاسو کی خاموشی سرمایہ کاروں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہی۔ جہاں مارکیٹ عموماً ایسے ہتھیاروں کیلئے جارحانہ شہرت کی عادی ہوتی ہے وہاں ممکنہ طور پر یہ خاموشی تسلیم شدہ کمزوری کے مترادف سمجھی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ڈاسو کا پی/ای تناسب 26 اعشاریہ 72 اور ڈیویڈنڈ ییلڈ محض 1 اعشاریہ 50 فیصد ہونے کے سبب یہ سٹاک اچانک سرمایہ کاری کی واپسی سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اگرچہ 52 ہفتوں کی بلند ترین سطح 332 اعشاریہ 20 یورو ہے تاہم موجودہ گراوٹ نے اسے نفسیاتی حد کے قریب لا کھڑا کیا ہے جہاں سرمایہ کاروں کے اعتماد کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ساکھ کا نقصان ڈاسو کی برآمدی حکمتِ عملی پر دیرپا اثرات مرتب کرے گا یا نہیں؟ مشرقِ وسطیٰ اور آسیان ممالک (ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز) کی جانب سے اپنی فضائی افواج کو جدید بنانے کی خبریں آ رہی ہیں اور ایسے میں پاکستان جیسی اہم مسلم ریاست کی جانب سے رافیل کی کھلے عام تردید مستقبل میں دفاعی نیلامیوں میں ڈاسو کیلئے ایک غیر متوقع رکاوٹ بن سکتی ہے۔
مختصر یہ کہ ڈاسو کا ایک ارب یورو کا نقصان محض ایک سٹاک گراوٹ نہیں بلکہ یہ اس حقیقت کی تصویر ہے کہ کیسے سخت طاقت، نرم ادراک اور سرد معاشی منطق کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اسلحہ کی صنعت میں جہاں ساکھ ہی اصل سرمایہ ہے وہاں آج کی جنگیں صرف میزائلوں سے نہیں بلکہ مارکیٹ اشاریوں سے بھی لڑی جا رہی ہیں۔