پیرس (تھرسڈے ٹائمز) — فرانسیسی اخبار ’’لے موند‘‘ نے لکھا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیز ہندوتوا کے نظریات سے پھوٹتی ہیں اور مودی نے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کیلئے ہندوتوا کے نظریات کو فروغ دیا ہے، مودی نے کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر پہلگام واقعہ میں اسلام آباد کے ملوث ہونے کا الزام عائد کر کے پاکستان پر حملہ کیا اور توقع کے مطابق پاکستانی فوج نے فوری جوابی کارروائی کی۔
لے موند کے مطابق چار روز تک جاری رہنے والے ڈرون حملوں، میزائل لانچز اور توپ خانوں سے فائرنگ کے بعد بھارت اور پاکستان ممکنہ بدترین نتائج کے خطرناک حد تک قریب پہنچ گئے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دو دن بعد کی گئی تقریر کے مطابق 10 مئی کو امریکا کے تعاون سے ہونے والی جنگ بندی ابھی نازک ہے، مودی نے کہا کہ اس کے پڑوسی کے خلاف تادیبی کارروائی صرف معطل کی گئی ہے۔
نریندر مودی، جنہوں نے 2022 میں روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد ولادیمیر پیوٹن سے کہا تھا کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے، اب اپنے ملک کو پاکستان کے ساتھ تقریباً ایک اور تنازعہ کی طرف لے گئے ہیں۔ مودی نے 22 اپریل کو کشمیر میں ہندوستانی سیاحوں کے خلاف کیے گئے دہشتگرد حملے کا بدلہ لینے کی کوشش کی جہاں حملہ آوروں نے مردوں کو ان کے اہلِ خانہ کے سامنے گولی مارنے سے پہلے کہا تھا کہ اعلان کریں کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر پہلگام واقعہ میں اسلام آباد کے ملوث ہونے کا الزام عائد کر کے پاکستانی پنجاب کے علاقہ میں مبینہ طور پر دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کر کے سفارتکاری پر طاقت کا انتخاب کیا۔ مودی نے یہ خیال کیا کہ جب تک ان کا دشمن اپنی سرزمین پر مبینہ دہشتگرد گروہوں کی موجودگی کو برداشت کرتا ہے تب تک وہ مجرم ہے۔ توقع کے مطابق پاکستانی فوج نے فوری جوابی کارروائی کی اور دو پُرعزم دشمن ایک خطرناک حد تک بڑھ گئے تاہم خوش قسمتی سے جنگ روک دی گئی۔
فرانسیسی اخبار کے مطابق یہ تنازع تقریباً تین دہائیوں میں سب سے زیادہ سنگین رہا اور اس تناؤ نے بھارت کی کمزوریوں کو بےنقاب کیا ہے کیونکہ یہ اپنی دو مخالف قوتوں پاکستان اور چین کے درمیان پھنسا ہوا ہے اور دونوں ہی ہمالیہ کے کچھ علاقوں میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔
پہلگام حملہ نے مودی کی کشمیر پالیسی کی غیر مؤثر نوعیت کو بھی اجاگر کیا ہے، اس کی نارملائزیشن کی پالیسی دراصل ہندوتوا کے نظریات سے پھوٹتی ہے، ایک نظریہ جو ایک صدی قبل انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں نے بنایا تھا اور اسے مودی نے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کیلئے فروغ دیا ہے۔
مودی نے 2019 کے بعد سے بھارت کے واحد مسلم اکثریتی خطہ کشمیر کو براہِ راست دہلی کے کنٹرول میں رکھا ہے اور کشمیر کو 1947 سے حاصل ہونے والی خصوصی آئینی خودمختاری کو منسوخ کر کے مقامی زمینی حکومت کو ختم کیا ہے جس کے مطابق زمین صرف کشمیریوں کیلئے مختص کی گئی تھی، نریندر مودی کا یہ اقدام پاکستان کی توہین تھا۔
لے موند نے لکھا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کشمیر پر کئی بار جھڑپیں کر چکے ہیں جبکہ مغربی ممالک کو دو جوہری طاقتوں کے درمیان ایسے تنازعہ پر توجہ دینے میں پوری دلچسپی ہے جو پورے خطے کو بھڑکا سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور مذاکرات میں ثالثی کی تجویز پیش کی جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا تاہم بھارت یہ نہیں چاہتا اور اس نے اصرار کیا ہے کہ کشمیر صرف دو طرفہ بات چیت کا معاملہ ہے۔