زیورخ (تھرسڈے ٹائمز) — سوئس اخبار ’’نویہ زرشر زائتنگ‘‘ کے مطابق بھارت کیلئے ’’آپریشن سندور‘‘ ایک مہلک ناکامی میں بدل گیا، اس کے ردعمل میں بھارت کو بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ اس نے مجموعی طور پر بھارت کے 3 فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے اور 2 سوویت ساختہ طیارے مار گرائے ہیں، اگرچہ جو حقیقتاً واقع ہوا ہے اس کے شواہد سب کے سامنے ہیں لیکن اس کے باوجود دہلی اب بھی ان نقصانات کو مسترد کر رہا ہے، رافیل طیارہ کی تباہی اس کے مینوفیکچرر ’’ڈاسو ایوی ایشن‘‘ کے حصص میں فوری کمی کا باعث بنی۔
نویہ زرشر زائتنگ (این زیڈ زیڈ) نے لکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں بھارتی فضائیہ کے ایک رافیل لڑاکا طیارے کے ملبے کو دکھایا گیا ہے جس میں ایک دُم (ٹیل فِن) اور اس کے قریب انجن کی باقیات نمایاں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے یہ فرانسیسی ساختہ طیارہ لڑائی کے دوران مار گرایا جبکہ اسے ممکنہ طور پر مائٹی ڈریگن (طاقتور اژدھا) کہلانے والے چینی چینگدو J10 لڑاکا طیارے اور PL15E ائیر ٹو ائیر میزائل کے ذریعہ تباہ کیا گیا۔
سوئس اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت کیلئے ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام سے شروع کی گئی کارروائی بظاہر ایک مہلک ناکامی میں بدل گئی، امریکیوں اور اسرائیلیوں کی طرز پر خفیہ و فوری اور کوئی نقصان اٹھائے بغیر حملہ کرنے کی خواہش رکھنے والی بھارتی فضائیہ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ اس نے مجموعی طور پر بھارت کے 3 فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے اور 2 سوویت ساختہ طیارے مار گرائے ہیں۔
اگرچہ تباہ شدہ طیاروں کی تصاویر اور ثبوت سوشل میڈیا پر کھلے عام دستیاب ہیں، جو حقیقتاً واقع ہوا ہے اس کے شواہد سب کے سامنے ہیں لیکن اس کے باوجود دہلی اب بھی ان نقصانات کو مسترد کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ آپریشن سندور مکمل طور پر کامیاب رہا ہے، بھارتی حکومت کے مطابق فضائیہ نے درست نشانے پر حملے کر کے کشمیر میں موجود 2 پاکستانی دہشتگرد گروہوں کے تربیتی کیمپس اور اسلحہ ڈپو کو تباہ کر دیا ہے جبکہ بھارت ان گروہوں کو اپریل میں کشمیر میں ہونے والے اس حملے کا ذمہ دار بھی ٹھہراتا ہے جس میں دو درجن سے زائد سیاح مارے گئے تھے۔
بھارتی مؤقف ہے کہ اسلام آباد نے ہمالیہ میں ہونے والے ان حملوں کی پشت پناہی کی، بھارت نے اپنی جانب سے پاکستان کو سبق سکھانے کی کوشش کی تاہم اس کے ردعمل میں بھارت کو بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ رافیل طیارہ مار گرایا گیا، پیرس میں واقع اس کے مینوفیکچرر ’’ڈاسو ایوی ایشن‘‘ کے حصص میں فوری کمی واقع ہوئی جبکہ دوسری طرف J10 طیارے تیار کرنے والی چینی کمپنی چینگدو کے حصص میں اضافہ دیکھا گیا۔
این زیڈ زیڈ نے لکھا ہے کہ یہ صرف سرمایہ کاروں کیلئے مالی نقصان کا معاملہ نہیں بلکہ ایک گہری سٹریٹیجک تشویش ہے۔ موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال میں رافیل کو یورپ کی ائیر ڈیفینس حکمتِ عملی میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ طیارہ روسی اور چینی فضائی دفاع کے خلاف مؤثر ثابت نہیں ہوتا تو یورپ کی دفاعی خودمختاری کے منصوبوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ بڑی حد تک رافیل پر انحصار کرتے ہیں۔
فرانس کی فضائیہ رافیل طیاروں کو ممکنہ طور پر جوہری مشنز کیلئے استعمال کرتی ہے، یہ طیارے فرانس کی جوہری مزاحمتی صلاحیت کا بنیادی جزو ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اس جوہری پروگرام کو یورپ کیلئے بھی وسعت دینے کا عندیہ دیا ہے جو کہ بڑی حد تک روس کے خلاف ہے، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب امریکہ نیٹو سے علیحدگی اختیار کر لے یا یورپ کیلئے اپنی جوہری چھت ہٹا لے۔
اس منظرنامہ میں رافیل طیاروں کی جنگی صلاحیت پر اٹھنے والے سوالات صرف بھارت کیلئے نہیں بلکہ پورے یورپ کے دفاعی مستقبل کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔