واشنگٹن (دی تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق بھارت کو پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر وہ حمایت نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہا تھا، عالمی سطح پر دونوں کو مساوی حیثیت سے دیکھا گیا جبکہ اس تصادم نے جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بھارت پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے سے متعلق ثبوت یا شواہد فراہم نہیں کر سکا جبکہ بھارت نے فضائی جھڑپوں کے دوران تباہ ہونے والے اپنے طیاروں کی تفصیلات بھی چھپائی ہیں۔
دی واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بعد اپنا بیانیہ دوبارہ تشکیل دینے اور اپنے حریف کے مقابل زیادہ جارحانہ عسکری پالیسی کیلئے عالمی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ہنگامی طور پر 20 سے زائد ممالک میں اپنے درجنوں قانون ساز اور سابق سفراء تعینات کر دیئے ہیں۔
مئی میں ہونے والی جھڑپیں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث انتہائی سنگین تھیں اور دونوں ممالک ایک مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے، دونوں طرف دو درجن سے زائد شہری ہلاک ہوئے جبکہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان کے ساتھ جھڑپوں میں بھارت کے کم از کم دو لڑاکا طیارے تباہ ہوئے ہیں۔
بھارت نے پاکستان کے اندر کیے گئے اپنے فضائی حملوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکی سیاحوں پر ہونے والے مہلک حملے کا جواب قرار دیا ہے اور اب نئی دہلی اپنے اتحادیوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے کہ یہ کارروائی دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک نیا محاذ ہے۔
بھارتی وفود مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ہیں تاکہ ملک کے اندر ایک قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے تاہم اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کو سٹریٹیجک اثرات پر پارلیمانی اجلاس نظر انداز کرنے کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ وفود میں شامل افراد کا انتخاب بھی ان کی مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سفارتی مہم ایک تلخ حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو عالمی برادری سے وہ حمایت نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہی تھی، عالمی سطح پر بھارت اور پاکستان کو مساوی حیثیت سے دیکھا گیا جو کہ ایک ایسا منظر ہے جس سے بھارت طویل عرصہ سے بچنا چاہتا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی حکومت کا یہ اقدام اس بات کا اعتراف ہے کہ نریندر مودی کی سفارتکاری اور خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جھڑپوں نے جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو اب بھارت کی کسی سفارتی مہم کے ذریعہ آسانی سے بحال نہیں ہو سکتا۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ہمیں چین پاکستان اتحاد اور کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھائے جانے جیسے سنگین مسائل درپیش ہیں مگر وزیراعظم (نریندر مودی) جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ محض دکھاوے کیلئے ہوتا ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی توجہ اب بھی اپنی خارجہ پالیسی کی بجائے اندرونی سیاست پر مرکوز ہے۔
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 22 اپریل کو کشمیر میں ہونے والے حملے کی مذمت کی اور بھارت سے یکجہتی کا اظہار کیا تاہم 7 مئی کو بھارتی حملوں کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے کشیدگی کو فوری کم کرنے پر زور دیا، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ امریکا فریقین کے ساتھ مل کر پُرامن حل کی کوشش کرے گا۔
نئی دہلی کیلئے یہ امریکا کی جانب سے برابری کا ایک پریشان کن پیغام تھا جو بھارت کی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی حیثیت کو نظر انداز کرتا ہے، ابتدائی طور پر واشنگٹن کی پالیسی بھارت کیلئے حیران کن تھی کیونکہ امریکی نائب صدر نے اپنے تبصرہ میں پاک بھارت تنازع سے متعلق کہا کہ ’’یہ بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ نہیں ہے‘‘۔
تاہم جنگ کی شدت کے باعث امریکی پالیسی میں جلد ہی تبدیلی سامنے آئی اور امریکی سفارتکاری کا نتیجہ 10 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کی صورت میں سامنے آیا مگر اختلافات برقرار رہے اور بھارت نے یہ اصرار کیا کہ جنگ بندی دوطرفہ طور پر ہوئی ہے جبکہ بھارت نے مارکو روبیو کے اس دعویٰ کو بھی مسترد کر دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ وسیع تر مذاکرات پر راضی ہوا ہے۔
نئی دہلی طویل عرصہ سے اسلام آباد پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتا رہا ہے، بھارت نے اپریل میں 26 شہریوں کی ہلاکت والے حملے کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا تاہم پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے واقعہ کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
امریکی اخبار کے مطابق بھارت میں ایک اپوزیشن راہنما نے اعتراف کیا کہ یہ (پہلگام) واقعہ بھارتی انٹیلیجنس کی ایک سنگین ناکامی ہے اور اس پر سوال اٹھانے والوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اس حملے سے نمٹنے میں بھارت کی ناکامی نے اس کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔
دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 7 مئی کو بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ’’تفتیش کاروں نے حملہ آوروں اور ان کے معاونین کی درست تصویر حاصل کر لی ہے‘‘ مگر اس کے بعد کوئی مزید معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
نئی دہلی میں تعینات ایک مغربی سفارتکار نے حساس معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے شفافیت میں کمی باعثِ تشویش ہے — جیسا کہ بھارت (پہلگام واقعہ) میں پاکستان کے ملوث ہونے سے متعلق ثبوت یا شواہد فراہم نہیں کر سکا جبکہ بھارت نے فضائی جھڑپوں کے دوران تباہ ہونے والے اپنے طیاروں کی تفصیلات بھی چھپائی ہیں، اگر بھارتی حکام مزید معلومات فراہم نہ کریں تو ان کی سفارتی مہم ناکام ہو سکتی ہے۔
بھارت کے 7 وفود پوری دنیا میں پھیل گئے ہیں جن کی توجہ ان ممالک پر ہے جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں یا رکن بننے والے ہیں، بھارتی وفود کی ملاقاتوں میں جن امور پر بات ہوئی ان میں جوہری کشیدگی کے امکانات اور بھارت کی جانب سے ایک اہم آبی معاہدہ (سندھ طاس معاہدہ) کی معطلی شامل ہیں۔
ان وفود نے ثقافتی سفارتکاری کا بھی سہارا لیا ہے، کویت میں وفد نے گرینڈ مسجد کا دورہ کیا جبکہ امریکا جانے والے وفد نے اپنا دورہ نیو یارک میں نائن الیون میموریل سے شروع کیا، سیئول میں وفد کے راہنما نے ایک کورین انفلوئنسر کے ساتھ انسٹاگرام ریل بھی بنائی۔
دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی بھارت کے بیانیہ کا توڑ کرنے کیلئے اپنی سفارتی مہم شروع کرے گا، پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ وہ ایک وفد کی قیادت کریں گے تاکہ قیامِ امن کیلئے پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر پیش کیا جا سکے۔
امریکی اخبار میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کیلئے باہمی تنازعات کا حل تلاش کرنا ناگزیر ہے، کشمیر بدستور ایک آتش فشاں ہے اور ایسا ہی رہے گا جب تک کہ تمام فریق ایک پائیدار سیاسی حل کی طرف آمادہ نہ ہوں۔
واشنگٹن میں بھارتی وفد کو ممکنہ طور پر اس مشکل سوال کا سامنا ہو گا کہ آیا جنگ بندی میں ٹرمپ انتظامیہ کا کوئی کردار تھا یا نہیں — کیونکہ بھارت کا اصرار ہے کہ اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں تھی۔ بھارت خود کو ابھرتی ہوئی عالمی طاقت سمجھتا ہے اور اس کا طویل مؤقف رہا ہے کہ وہ اپنے چیلنجز کو خود سنبھال سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی سفارتی مہم اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مودی حکومت کے اندرونی بیانیہ کنٹرول کرنے والے حربے — جیسا کہ تابع میڈیا اور منصوبہ بند پیغام رسانی — کو بیرونِ ملک بھی برآمد کیا جا سکتا ہے۔