تجزیہ: حالیہ پاک بھارت تصادم کے دوران بھارتی میڈیا جھوٹ اور افواہوں کا گڑھ بن گیا، دی واشنگٹن پوسٹ

حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا جھوٹ اور افواہوں کا گڑھ بن گیا، عوامی رائے کو مسخ کیا گیا، جھوٹے دعوؤں کو ثابت کرنے کیلئے غزہ، سوڈان، فلاڈیلفیا اور ویڈیو گیمز تک کے مناظر کو نشر کیا گیا۔

واشنگٹن (دی تھرسڈے ٹائمز) — امریکی اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق حالیہ پاک بھارت تصادم کے دوران بھارتی میڈیا جھوٹ اور افواہوں کا گڑھ بن گیا، واٹس ایپ پیغامات کے ذریعہ موصول ہونے والی جھوٹی خبروں سے عوامی رائے کو مسخ کیا گیا، نیوز چینلز نے جھوٹے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کیلئے غزہ اور سوڈان کے تنازعات اور فلاڈیلفیا کے ہوائی حادثہ اور یہاں تک کہ ویڈیو گیمز کے مناظر کو بھی نشر کر دیا۔

واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے شائع ہونے والے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ایک بھارتی صحافی کو 9 مئی کی نصف شب سرکاری نشریاتی ادارہ ’’پراسر بھارتی‘‘ کی جانب سے واٹس ایپ پیغام موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ملک میں فوجی بغاوت جاری ہے۔

چند منٹس میں اس صحافی نے یہ خبر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر (ایکس) پر شیئر کر دی جس کے بعد دیگر کئی افراد نے بھی یہی دعویٰ کیا اور جلد ہی یہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ بھارتی نیوز چینلز پر چھا گئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، یہ جھوٹی خبر بھارت میں گزشتہ ماہ پھیلنے والی بہت ساری گمراہ کن خبروں میں سب سے نمایاں تھی۔

امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ یہ خبر مکمل طور پر جھوٹی تھی، پاکستان میں کوئی فوجی بغاوت نہیں ہوئی تھی جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نہ صرف آزاد تھے بلکہ کچھ ہی دنوں بعد اُنہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی بھی دی گئی۔

واشنگٹن پوسٹ نے بھارت کے کچھ بڑے نیوز نیٹ ورکس کے دو درجن سے زائد صحافیوں اور موجودہ و سابق بھارتی حکام سے گفتگو کی ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ کس طرح بھارت کا میڈیا سسٹم جھوٹ اور افواہوں سے بھر گیا اور کس طرح اس نے عوامی رائے کو مسخ کیا۔ صحافیوں نے نام اور ادارہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی جبکہ بیشتر حکام نے بھی یہی شرط رکھی۔

بھارت کی سابق سیکرٹری خارجہ نیروپما راؤ نے کہا کہ جیسے جیسے رات بہ رات جھڑپیں بڑھتی گئیں، بھارتی حکام کی جانب سے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس خلا کو شدت پسندانہ قوم پرستی اور غیر معمولی فاتحانہ جشن نے پُر کر دیا جبکہ اس صورتحال نے ایک متوازی حقیقت کو جنم دیا۔

چینل ’’ٹائمز ناؤ نوبھارت‘‘ نے دعویٰ کیا کہ بھارتی افواج پاکستان میں داخل ہو گئی ہیں، چینل ’’ٹی وی 9 بھارت ورش‘‘ نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں جبکہ ’’بھارت سماچار‘‘ نے بتایا کہ وہ (پاکستانی وزیراعظم) بنکر میں چھپے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی کئی بڑے چینلز — جیسے زی نیوز، اے بی پی نیوز اور این ڈی ٹی وی — نے بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان کے بڑے شہر تباہ ہو چکے ہیں۔

ان جھوٹے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کیلئے چینلز نے غزہ اور سوڈان کے تنازعات اور فلاڈیلفیا کے ہوائی حادثہ اور یہاں تک کہ ویڈیو گیمز کے مناظر کو بھی نشر کر دیا۔

زی نیوز، این ڈی ٹی وی، اے بی پی نیوز، بھارت سماچار، ٹی وی 9 بھارت ورش، ٹائمز ناؤ اور پراسر بھارتی نے واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

بھارت کی معروف میڈیا ناقد اور ’’نیوز لانڈری‘‘ کی ایڈیٹر منیشا پانڈے نے بھارتی میڈیا کی جانب سے ان جھوٹی خبروں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ خطرناک ترین روپ ہے جو بھارتی ٹی وی چینلز نے گزشتہ ایک دہائی سے کسی روک ٹوک کے بغیر اختیار کیا ہوا ہے، یہ اب فرینکنسٹائن کے مونسٹر بن چکے ہیں — جس پر اب کسی کا کنٹرول نہیں جبکہ اینکرز کی بڑی تعداد مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کو اپنے کیرئیر کیلئے بہت اہم سمجھتی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صحافیوں نے جھڑپوں کے دوران خبر کی تصدیق کے فقدان پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے، ایک انگلش چینل کے رپورٹر نے کہا ہے کہ اب صحافت وہی ہے جو آپ کو کسی کے بھی واٹس ایپ سے مل جائے — اور صحافت کی اہمیت ایسے وقتوں میں واضح ہو جاتی ہے۔

ایک ہندی زبان والے بڑے چینل کے واٹس ایپ گروپ میں 8 مئی کی نصف شب سے پہلے ایک رپورٹر نے اپنے کولیگز کیلئے لکھا کہ ’’بھارتی بحریہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہے‘‘ جبکہ رپورٹر نے اس میسیج میں ’’کراچی‘‘ کا بھی ذکر کر دیا۔ چند ہی منٹس میں اس چینل نے غلطی سے رپورٹ کر دیا کہ بھارتی بحریہ نے کراچی پر حملہ کر دیا ہے۔

ایک اور نیوز روم سے منسلک جرنلسٹ نے کہا کہ اس کے چینل نے بھارتی نیوی اور بھارتی ائیر فورس کی جانب سے تصدیق کے بعد ایسی خبریں نشر کیں تاہم ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پر بھارتی فوج نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

ایک اور نیٹ ورک کے ملازم نے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے چینلز کسی گھٹیا افسانہ نگار کے قبضہ میں ہوں۔

کچھ صحافیوں نے بتایا کہ انہوں نے حکومتی ذرائع یا حکومتی پارٹی سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے خبریں حاصل کر کے نشر کیں۔

چینل ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کی معروف اینکر شویتا سنگھ نے اعلان کیا کہ ’’کراچی 1971 کے بعد بدترین ڈراؤنے خواب میں ڈوبا ہوا ہے‘‘ جبکہ شویتا سنگھ نے دونوں ممالک کے درمیان جاری تصادم سے متعلق کہا کہ ’’پاکستان مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے‘‘۔

جب کراچی پورٹ ٹرسٹ نے 9 مئی کی صبح 8 بجے واضح کیا کہ ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا تو اُس وقت تک کئی ہندی اخبارات شویتا سنگھ والی خبر اپنے پہلے صفحہ پر چھاپ چکے تھے۔

دی واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے رابطہ کرنے پر شویتا سنگھ نے بھی تبصرے سے گریز کیا۔

جھوٹی خبروں کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر پینل ڈسکشنز میں ریٹائرڈ فوجی اہلکار بھی شامل ہو گئے اور بریکنگ نیوز کے بینرز کے ساتھ لڑاکا طیاروں کی گرافکس اور سائرن کی آوازیں نشر ہونے لگیں۔ حکومت کو یہاں تک کہنا پڑا کہ ایسے گرافکس نشر نہ کیے جائیں کیونکہ اس سے عوام اصل ایمرجنسیز کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیں گے۔

ایک موقع پر این ڈی ٹی وی — آکسفورڈ یونیورسٹی میں رائٹرز انسٹیٹیوٹ کے مطابق بھارت میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے نیوز چینل — کے لائیو شو میں ایک رپورٹر کی ہاٹ مائیک پر آواز ریکارڈ ہوئی کہ ’’پہلے آپ کہتے ہیں اپ ڈیٹ دو، پھر کہتے ہیں غلط کیوں دی؟‘‘

چینل ’’آج تک‘‘ کے ایک پروگرام میں جب ایک نوجوان نے بھارتی نیوز چینلز کی جانب سے غیر مصدقہ خبریں نشر ہونے کے باعث عالمی سطح پر بھارت کو ہونے والی شرمندگی سے متعلق سوال کیا تو رپورٹر نے مائیک ہٹا لیا۔

دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ اور ’’آج تک‘‘ نیٹ ورکس چلانے والے ادارہ ’’ٹی وی ٹوڈے‘‘ کے ہیڈ آف پبلک ریلیشنز نے بھی تبصرے سے گریز کیا۔

ایک معروف انگلش چینل کے اینکر نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا تھا اُس پر افسوس ہوا اور اب وقت ہے کہ ہم صحافت پر خود احتسابی کریں۔

ہر رات حملے بڑھتے گئے لیکن بھارتی حکام — جن کی قیادت سیکرٹری خارجہ وکرم مِسری کر رہے تھے — عام طور پر اگلی صبح ہی میڈیا کو بریفنگز دیتے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 10 مئی کی جنگ بندی کے بعد ہی پہلا بیان دیا جبکہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کشیدگی کے دوران صرف ایک سطر پر مبنی ٹویٹ کیا۔

اس خلا کو ٹی وی اینکرز نے پُر کیا۔ بھارت کے ایک سابق نیوی ایڈمرل نے کہا کہ ’’ہم اطلاعات کی جنگ ان کرداروں سے ہار گئے ہیں‘‘ تاہم ایک سینئر قومی سلامتی اہلکار نے کہا کہ ’’یہ گمراہ کن معلومات بھارت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوئیں، اگر نچلی سطح کے حکومتی ذرائع نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا تو وہ اس لیے تھا کہ دشمن بھی دیکھ رہا ہے اور مقصد زیادہ سے زیادہ کنفیوژن پیدا کرنا ہے، کبھی کبھار اس کا نقصان اپنے ہی عوام کو ہوتا ہے لیکن جنگ اب اسی طرح لڑی جاتی ہے‘‘۔

سابق سیکرٹری خارجہ راؤ نے کہا کہ ’’ٹی وی چینلز لاؤڈ سپیکر کی طرح برتاؤ کر رہے تھے جبکہ ہمیں ایک مائیکروفون کی ضرورت تھی جس کی آواز معتبر ہو‘‘۔

صحافیوں کے مطابق اگرچہ کئی نیوز رومز میں اندرونی سطح پر اس صورتحال پر غور کیا جا رہا ہے لیکن عوامی سطح پر معافی شاذ و نادر ہی دیکھی گئی۔ ایک اینکر نے ’’آج تک‘‘ پر تسلیم کیا کہ ’’ہماری احتیاط کے باوجود کچھ رپورٹنگ نامکمل رہی جس کیلئے ہم معذرت چاہتے ہیں‘‘۔

لیکن کچھ صحافی اب بھی اپنی پوزیشن پر قائم ہیں جیسے ’’ٹائمز ناؤ نوبھارت‘‘ کے اینکر سشانت سنہا نے 8 منٹس کا ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر چینل سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی لیکن ہماری کوئی بھی غلطی بھارت کے خلاف نہیں تھی‘‘۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: