تل ابیب (تھرسڈے ٹائمز) – اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر حملے فوری بند کیے جائیں، ٹرمپ نے سخت لہجے اور دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ جنگ بندی اُن کی ذاتی کامیابی ہے اور کوئی اسے سبوتاژ نہیں کر سکتا، بینجمن نیتن یاہو بمشکل کچھ کہہ سکے اور بار بار شکریہ ادا کرتے رہے۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق جیسے ہی اسرائیلی جنگی طیارے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور ایران کے 20 مقامات پر حملے کیلئے محض چند منٹس کی دوری پر تھے — جو کہ اُس ایرانی میزائل حملے کا جواب تھا جس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی — اسی دوران اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک اہم ٹیلیفونک گفتگو ہوئی۔
یروشلم پوسٹ نے ایک باخبر ذریعہ کے حوالے سے بتایا کہ اس گفتگو میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بینجمن نیتن یاہو پر سخت لہجے میں دباؤ ڈالا اور دو ٹوک انداز میں کہا؛ ’’حملہ روک دو‘‘۔
بینجمن نیتن یاہو گفتگو کے دوران بمشکل کچھ کہہ سکے، البتہ انہوں نے بار بار امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا۔
یہ گفتگو خاصی سخت تھی، صدر ٹرمپ اس جنگ بندی کو اپنی ذاتی کامیابی سمجھتے ہیں اور انہوں نے واضح کر دیا کہ کوئی بھی — بالکل کوئی بھی — اسے سبوتاژ نہیں کر سکتا۔
بالآخر اسرائیلی فضائیہ (آئی اے ایف) کے پائلٹس کو حملہ روکنے کا حکم دے دیا گیا اور مجبوری کے طور پر اسرائیل نے تہران کے قریب واقع ایک ریڈار سٹیشن کو نشانہ بنایا جو اصل اہداف سے بہت دور تھا۔
قطر کے ذریعہ ایران کو امریکی انتباہ
یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے قطر کے ذریعہ ایران کو بھی ایک سخت پیغام پہنچایا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا؛ ’’کسی قسم کی مزید جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی، حملے بند کر دو‘‘۔
یہ پیغام قطری ثالثوں کے ذریعہ ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے پہنچایا۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق اب امریکا اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ طریقہ کار اور ضوابط طے کیے جا رہے ہیں تاکہ ایران کی جوہری اور بیلسٹک میزائل سرگرمیوں کی ممکنہ بحالی کو روکا جا سکے اور یہ طے کیا جا سکے کہ دونوں ممالک آئندہ اس حوالے سے کس طرح تعاون کریں گے۔
دریں اثناء — دوحہ امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی کیلئے کام کر رہا ہے۔ ایران نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بارہا اسرار کیا ہے کہ اسرائیلی حملے روکنے کے بعد وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہے۔