spot_img

Columns

Columns

News

تورطت المملكة العربية السعودية في مؤامرة للإطاحة بحكومة رئيس الوزراء السابق عمران خان، كما يزعم أحد المقربين من عمران خان

لقد أطاحت المملكة العربية السعودية بحكومة عمران خان، وكانت المملكة العربية السعودية والولايات المتحدة هما الدولتان اللتان اكتملت بدعمهما عملية تغيير النظام. كما أن الدعم الاقتصادي الذي تقدمه المملكة العربية السعودية لباكستان هو أيضًا جزء من نفس التخطيط، شير أفضل مروات۔

Pakistan grants 34 firms licenses to develop electric vehicles for its domestic market

Pakistan's Engineering Development Board has granted 34 licenses for electric vehicle manufacturing under its 2020-2025 policy, aiming to equip petrol stations with EV chargers and leverage global climate funds to promote clean transportation.

پاک فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا

پاک فوج نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر انکوائری کا آغاز کر دیا ہے، جنرل (ر) فیض حمید پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف دورانِ ملازمت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، شیر افضل مروت

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، سعودی عرب اور امریکہ دو ممالک تھے جن کے تعاون سے رجیم چینج آپریشن مکمل ہوا، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے معاشی تعاون بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے۔راہنما تحریکِ انصاف شیر افضل مروت
Commentaryفیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے
spot_img

فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

ملکی سیاست کی کایا اچانک پلٹ گئی ہے وہی جو کل کے فرعون تھے، جن لہجے میں تحکم اور تحقیر جھلکتی تھی، وہی اب معافی کے خواستگار ہیں، وہی جو کل کے ظالم تھے، اب مظلوم بنے دکھائی دیتے ہیں، وہی جو نفرت کا منبع تھے، اب محبتوں کے پھول برسانے کو تیار ہیں۔

یوں لگتا ہے سیاست کی تاش کی بازی اچانک نواز شریف کے ہاتھ میں آ گئی ہے، چاروں “یکے” ان کے ہاتھ میں ہیں، اب ان کی مرضی جو چاہے چال لیں ، جو چاہے برج الٹ دیں، جسے چاہے مات دے دیں، ہر بات نواز شریف کی مانی جا رہی ہے، ہر بات پر قبول ہے، قبول ہے کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔بہت سے لوگ جو اس نئے پاکستان کے بانی تھے ،وہ اب پرانے پاکستان کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں، اب میاں صاحب کی مرضی ہے چاہے وہ بلوچستان میں نئی حکومت کی تبدیلی کا پھر سے عندیہ دے دیں، سینٹ چیئر مین کی کرسی الٹ دیں، وفاق میں تحریک ِعدم اعتماد لے آئیں، پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنا دیں۔ اگر حکم کریں تو پی ٹی آئی کے اندر سے بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے،پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی یا جہانگیر ترین گروپ کو ملک کی جز وقتی سربراہی سونپی جا سکتی ہے،نئےالیکشن پر بھی بات ہو سکتی ہے،تحریک ِلبیک کا معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے، فوج کی مداخلت بھی روکی جا سکتی ہے، بندے توڑنے والی سیاست سے بھی توبہ کی جا سکتی ہے، الیکشن والے دن دھاندلی سے بھی اجتناب کیا جا سکتا ہے، “باپ” اور “جی ڈی اے” جیسے اتحادوں سے توبہ کی جاسکتی ہے، سیاست پر پابندی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ عدالتیں بھی جلدی جلدی معاملات نمٹا سکتی ہیں، کل کے گناہ گار، غدار اور کافر پل بھر میں نیک نام ، محب وطن اور دین دار ہو سکتے ہیں۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ اس اسٹیبلش منٹ کے دل میں اچانک میاں صاحب کا درد کہاں سے آ گیا؟ اس اسٹیبلش منٹ نے اچانک جمہوریت کا علم کیسے اٹھا لیا ؟ اس اسٹیبلش منٹ نے اچانک ووٹ کو عزت دینے کی کیوں ٹھان لی، اس اسٹیبلش منٹ کو اچانک پارلیمان کی سپرمیسی کیسے یاد آ گئی،  اس اسٹیبلش منٹ کو اچانک عوام کی کیوں فکر پڑ گئی؟

تین سال پہلے یہی لوگ تھے ،یہی ملک تھا کہ یہاں وقت کا پہیہ الٹا چل رہا تھا، عزتیں اچھالی جا رہی تھیں، نفرت پھیلائی جا رہی تھی ، آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں، قانون کو کھلونے کی طرح استعمال کیا جا رہا تھا، میڈیا کو وٹس ایپ  کے احکامات کی باندی بنا دیا گیا تھا؛ ایسے میں اچانک یہ کایا کیسے پلٹ گئی؟

یہ سب کچھ اب بھی نہ ہوتا  اگر معیشت کے حالات ایسے نہ ہوتے، اگر ڈالر کی پرواز ایک سو اسی تک نہ پہنچ چکی ہوتی، اگر پٹرول کی قیمت ایک سو پچاس لیٹر تک  پہنچنے کا امکان نہ ہوتا، اگر چینی دو سو روپے تک ملنے کا امکان نہ ہوتا، اگر بے روزگاری کی شرح عروج پر نہ جا پہنچتی، اگر غربت لوگوں کو خود کشی پر مجبور نہ کرتی، اگر معیشت اچھی ہوتی تو کسی کو جمہوریت ،نواز شریف یا ووٹ کی عزت یاد نہ آتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تو صرف معاشی تباہی کی ابتدا ہے، آنے والے دن اس سے بھی خوفناک ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کا پیکج نہیں ملتا تو اس ملک میں گاؤں کے گاؤں غربت سے اجتماعی خودکشی کریں گے، پٹرول “ساشے” میں ملا کرے گا اور چینی دانہ بہ دانہ فی درجن دستیاب ہو گی۔ جن کے پاس نوکریاں ہیں وہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے، حکومت ِپاکستان کے پاس تنخواہیں دینے کے  پیسے نہ ہوں گے، دفاعی اخراجات کے لیے ملنے والے قرضے بھی ختم ہو جائیں گے، یہ سب کچھ اگلے تین ماہ میں ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر تبدیلی لانے والے جمہوریت کے حق میں نہیں ہو گئے بلکہ اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کسی طرح بھی کوئی اور حکومت آ جائے اوران  کی گردن کا پھندہ کسی اور کے گلے میں فٹ آ جائے، لوگ انھیں برا بھلا کہنے کے بجائے کسی اور کو گالیاں دیں  گویا اس طویلے کی بلا جس بندر کے سر ہے وہ قربانی کے لیے کسی اور بکرے کی تلاش میں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے، اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے  انھیں اس نظام سے، نئے پاکستان سے۔

معیشت کے حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ اب اس کو درست سمت پر لانے کے لیے کئی برس درکار ہیں، بدترین گورنس کی وجہ سے اب بھوک مہنگائی اور غربت کو ختم کرنے کے لیے چند سال تو لگیں گے ، لوگ فوری ریلیف کی توقع کر رہے ہیں جو اب کسی کے اختیار میں نہیں رہا، اب حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، اب دیکھنا ہے نواز شریف اس موقع پر اسٹیبلش منٹ کو ریسکیو کرتے ہیں کہ نہیں، ان کے گناہوں کو بوجھ اپنے سر لیتے ہیں کہ نہیں، اس معاملے پر دو مثالیں دینا کافی ہے:

1971ء کے سانحے کے بعد لوگوں میں جنگ میں شکست کی وجہ سے بہت غم و غصہ تھا، لوگ ہتھیار ڈالنے والوں کو قومی مجرم سمجھتے تھے، لوگ پاکستان کو دولخت کرنے کا ذمہ اس وقت کے جرنیلوں کو دیتے تھے، ایسے میں بھٹو نے اسٹیبلش منٹ کی عزت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ، ہتھیار ڈال دینے والے قیدیوں کا پھولوں سے استقبال  کیا، ان کا امیج بہتر کیا، ترانے بنوائے  لیکن کیا ہوا؟ اسی اسٹیبلش منٹ نے چھے سال کی قلیل مدت میں اسی محسن کو ایک غلط مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا۔

کارگل کے ایشو پر بھی یہی ہوا، میاں صاحب نے قومی مفاد میں فوج کی عزت بچائی، ان کا اقبال بلند کیا، ان کے امیج کا خیال رکھا، ان کا موروال  ڈاؤن نہیں ہونے دیالیکن کیا ہوا ؟ اسی نواز شریف کو چند ماہ بعد اقتدار سے الگ کر دیاگیا،  قید میں ڈال دیا گیا، جلاوطن کر دیا گیا ، اکیس سال تک سیاست میں شمولیت پر پابندی لگ گئی۔

اب بھی صورت حال وہی ہے معافی کے خواستگار بس اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں، ایک بار یہ نکل گئے تو پھر وہی ہو گا جو ہماری تاریخ کا تاریک حصہ ہے۔

اس بار عام معافی کے اعلان سے پہلے اسٹیبلش منٹ کی جانب سے گناہوں کا اعتراف ضروری ہے، نفرت کے شعار سے توبہ لازم ہے،الیکشن جیتنے کی قبیح رسم کے اجتناب کا اقرار لازم ہے،  کچھ لوگوں کو آئین توڑنے جرم میں نشان ِعبرت بنانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چند سال  کےبعد وہی ہو گا جو ہوتا رہا ہے۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: