عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا کہہ دیا ہے، جوڈیشل کمیشن کا اعلان نہ ہونے کی صورت میں مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے، تحریکِ انصاف کو کسی بیرونی مدد کا انتظار نہیں ہے، عمران خان اپنا مقدمہ پاکستانی عدالتوں میں ہی لڑیں گے۔
اقلیتیں میرے سر کا تاج ہیں اور اتنی ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم سب ہیں۔ اقلیتوں کا تحفظ میری ذمہ داری اور میرا فرض ہے۔ اقلیتوں کے خلاف کوئی سازش کرے گا تو اس کا پوری قوت سے راستہ روکوں گی۔ اقلیتوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ملک ریاض اور انکے بیٹے کے خلاف غیرقانونی ہاؤسنگ سکیمز، زمینوں پر ناجائز قبضوں، کرپشن اور فراڈ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ملک ریاض مفرور اشتہاری ہے، نیب ملک ریاض کو واپس لانے کیلئے اقدامات کر رہا ہے۔ کرپشن اور رشوت کا جواب دیں، مذہب کارڈ استعمال نہ کریں۔
غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے پاکستان سے جو بھی ہو سکا وہ کرے گا۔ گوادر ایئر پورٹ ترقی و خوشحالی میں سنگِ میل ہے، چین جیسے دوست کی قدر کرنی چاہیے۔ ہم شہداء کا قرض نہیں اتار سکتے، ان قربانیوں کی جتنی بھی تعظیم کی جائے کم ہے۔
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
تحریر حماد حسن
انیس دسمبر کو خیر پختونخواہ کے سترہ اضلاع میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میں بونیر واحد ضلع ہے جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اکثریت ملی اور پانچ میں سے چار تحصیلوں میں کامیابی حاصل کر کے ضلع کی سطح پر اکثریتی پارٹی بن کر ابھری جبکہ باقی اضلاع میں عموما جے یو آئی ف کو کامیابی ملی۔
یہ الیکشن بظاہر تو پی ٹی آئی کےلئے دھچکا ثابت ہوا لیکن در اصل اے این پی کا سیاسی نقصان پی ٹی آئی سے بھی کہیں زیادہ ہے کیونکہ وسطی پختونخواہ کے جن اضلاع میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی کے سبب جے یو آئی نے ناراض ووٹر کو اپنی طرف کھینچا وہ اضلاع (پشاور مردان چارسدہ صوابی بونیر اور نوشہرہ) درحقیقت اے این پی کے گڑھ سمجھے جاتے تھے (دو ھزار اٹھارہ کے فتہ انگیز انتخابات صرف نظر کرتے ہوئے)۔ لیکن نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ اے این پی کے لئے اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال سولہ جنوری کو اس وقت پیدا ہوگی جب باقی ماندہ سترہ اضلاع میں انتخابات ہوں گے کیونکہ ھزارہ اضلاع (ایبٹ آباد مانسہرہ میں کلی طور پر) جبکہ بٹگرام اور کوہستان میں جزوی طور پر مسلم لیگ کا پلڑا بھاری ہے البتہ ضلع تورغر میں اکثریتی پشتون آبادی اور پشتو زبان کے سبب اے این پی کا موثر ووٹ بینک موجود ہے اور وہ یہاں سےایک یا دو سیٹ لے سکتے ہیں تا ہم اس پورے بیلٹ(ہزارہ) میں پی ٹی آئی کا اثر و رسوخ بھی ھے لیکن وہ اس پوزیشن میں ہرگز نہیں کہ مسلم لیگ کو ہرا سکے کیونکہ یہ علاقہ(خصوصا ایبٹ آباد مانسہرہ ) عمومی طور پر نواز شریف اور مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ البتہ کوہستان اور بٹ گرام میں کثرت سے دینی مدارس کی موجودگی اور مولانا فضل الرحمن کا گہرا اثر و رسوخ ان دونوں اضلاع میں جے یو آئی ف کو بڑی کامیابی دلا سکتے ہیں۔ گویا ہزارہ اضلاع میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی لیڈ لینے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ اے این پی کو صرف ایک ضلع (تورغر) میں جزوی کامیابی مل سکتی ھے لیکن یاد رھے کہ تورغر ضلع سے ہمیشہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے زرین گل خان اے این پی چھوڑ کر جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اس لئے اس ضلع میں بھی جے یو آئی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ مجموعی حوالے سے پورے ہزارہ میں تحریک انصاف پارٹی ووٹ کی بجائے طاقتور امیدواروں اور صوبائی حکومت کے اثر و رسوخ پر ہی انحصار کرے گی۔
شمالی پختونخواہ کے چھ اضلاع (ملاکنڈ ڈویژن ) میں شانگلہ سوات ملاکنڈ لوئر دیر اپر دیر اور چترال کے اضلاع شامل ہیں یہاں تقریبا تمام جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن اپر دیر اور چترال میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا اثر و رسوخ دوسری جماعتوں کی نسبت کہیں زیادہ ھے اور یہ حلقے ہمیشہ انہی دو پارٹیوں کو انتخابات میں کامیابی دلاتے رہے ہیں جبکہ ملاکنڈ (خاص) میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک دوسری جماعتوں سے بڑھ کر ہے۔ لوئر دیر میں تمام جماعتوں بشمول مسلم لیگ اے این پی پی ٹی آئی اور مولانا کا اثر و رسوخ بھی تقریبا اتنا ہی ہے جتنا پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا۔ گویا پی ٹی آئی اور اے این پی اگر یہاں سے انفرادی حیثیت سے الیکشن لڑیں تو کسی بڑی کامیابی کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی اور ان پارٹیوں کے حوالے سے وہی صورتحال بنے گی جو دوسرے اضلاع میں انیس دسمبر کے انتخابات میں بنی تھی۔ سوات اور شانگلہ کے اضلاع میں پی ٹی آئی مسلم لیگ اے این پی اور جے یو آئی کا تقریبا یکساں ووٹ بینک موجود ہے لیکن خراب کارکردگی اور مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی کو حسب سابق مشکل صورتحال کا سامنا بھی ہے تا ہم ان دو اضلاع میں پی ٹی آئی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ کے امیر مقام اور با اثر وفاقی وزیر مراد سعید کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی محمود خان کا تعلق بھی سوات سے ہے اور وہ ایک دوسرے کے سیاسی حریف بھی ہیں اس لئے یہاں سخت رن پڑنے کا امکان ہے۔ لیکن یاد رھے کہ سوات سے ملحقہ ضلع بونیر وہ واحد ضلع ھے جہاں انتخابات کے پہلے مرحلے یعنی انیس دسمبر کو انتہائی غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا تھا اور تحریک انصاف نے پانچ میں سے چار تحصیلوں پر کامیابی حاصل کی ھے۔ اس لئے کوئی “سرپرائز” بھی خارج از امکان نہیں۔
باقی ماندہ چار اضلاع جن میں سولہ جنوری کو انتخابات ہونے ہیں ان میں شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان کرم(پارہ چنار) اور اورکزئی اضلاع شامل ہیں۔ یہ چاروں اضلاع صوبہ خیبر پختونخواہ کے انتہائی جنوب یا جنوب مغرب میں واقع ہیں یہ پہلے فاٹا کا حصہ تھے اور ایجنسیز کہلائے جاتے تھے جنہیں فاٹا انضمام کے بعد ضلعوں کا درجہ دیا گیا۔ یہ علاقے خصوصا (شمالی اور جنوبی وزیرستان اضلاع ) دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ ضلع کرم(پارہ چنار) طویل عرصے تک فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں بھی رہا کیونکہ یہاں سنی آبادی کے ساتھ ساتھ اھل تشیع کی بھی کثیر آبادی ہے۔ کرم میں انیس سو ستر سے پیپلزپارٹی کا موثر ووٹ بینک موجود ھے لیکن یہاں سنی اکثریتی علاقوں میں مذھبی ووٹ بھی کافی موثر ہے جس کا زیادہ تر جھکاؤ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی کی جانب ہے البتہ پیپلزپارٹی کو شیعہ اکثریتی آبادیوں میں زیادہ پذیرائی حاصل ھے۔ امکان ہے کہ اس ضلع سے پیپلزپارٹی کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ کرم سے ملحقہ ضلع ہنگو میں حال ہی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کو کامیابی بھی مل چکی ہے اور دو میں سے ایک تحصیل جیت گئے ہیں۔ اس لئے اس ضلع (کرم ) میں صرف پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ووٹ کے حوالے سے قابل ذکر پوزیشن میں ہیں جبکہ باقی پارٹیوں کا اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ اگر یہاں اہل تشیع نے انفرادی طور پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تو مقامی سطح پر انتخابی نتائج قدرے تبدیل ہو سکتے ہیں البتہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا ووٹ اس سے متاثر نہیں ہوگا لیکن پیپلز پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔
ضلع اورکزئی میں جے یو آئی کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اثر نہیں یہ ضلع چونکہ دور افتادہ بھی ہے اور قدرے خاموش بھی اس لئے یہاں تجارت اور سیاست کی چہل پہل نہیں۔ تا ہم مذہبی رجحانات اور مدارس کی موجودگی فطری طور پر یہاں کے لوگوں کو جے یو آئی کے قریب لے گیا ہے۔ اس لئے امکان ہے کہ یہاں کا انتخابی نتیجہ زیادہ تر جے یو آئی کے حق میں ھی ہوگا۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان اضلاع صوبے کے انتہائی جنوب میں واقع ہیں۔ یہ دونوں اضلاع وہی ہیں جو دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں. ان دونوں اضلاع میں مذہبی اثرات انتہائی گہرے ہیں اور قدم قدم پر مذہبی مدارس بھی موجود ہیں۔ گو کہ یہاں ردعمل کے طور پر متنازعہ جماعت پی ٹی ایم کو مبالغہ آمیز پذیرائی حاصل ہے لیکن مذھبی حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا اثر و رسوخ بھی کافی گہرا ہے۔ آگر چہ نوجوان طبقے میں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ اے این پی کے لئے بھی پسندیدگی کا عنصر موجود ہے لیکن معروضی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے موثر ووٹ بینک نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے آخری تجزیہ یہی ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان اضلاع میں پی ٹی ایم اور جے یو آئی ہی سیاسی طاقت کی حامل پارٹیاں ہیں۔ سولہ جنوری میں خیبر پختونخواہ کے باقی ماندہ اضلاع میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے پی ٹی آئی اور اے این پی کے لئے کسی بڑی خوشخبری کا امکان فی الحال بہت کم ہے کیونکہ جن تین چار اضلاع میں پی ٹی آئی اور اے این پی کا اوسط درجے کا ووٹ بینک موجود ہے اس سے کہیں زیادہ ووٹ بینک تو ان اضلاع میں موجود تھا جہاں ان دونوں پارٹیوں (پی ٹی آئی اور اے این پی) کو خوفناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔