spot_img

Columns

Columns

News

Supreme court permits military courts to deliver verdicts for 85 accused

The Supreme Court's constitutional bench has permitted military courts to deliver verdicts for 85 accused individuals, conditional on the outcome of a pending case. Those eligible for leniency are to be released, while others will be transferred to prisons to serve their sentences.

سٹاک مارکیٹ میں تاریخی بلندی، ہنڈرڈ انڈیکس میں 1 لاکھ 15 ہزار کی نفسیاتی حد بھی عبور

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی کا رجحان برقرار، سٹاک ایکسچینج میں 1 لاکھ 15 ہزار کی نفسیاتی حد عبور ہو گئی، بینچ مارک KSE ہنڈرڈ انڈیکس میں 991 سے زائد پوائنٹس اضافہ کے ساتھ سٹاک ایکسچینج 115172 پوائنٹس تک پہنچ گیا۔

Pakistan Stock Market KSE 100 Index crosses 115,000 in historic bull run

The Pakistan Stock Market celebrates a historic moment as the KSE 100 Index surpasses 115,000 points, showcasing investor confidence and robust market performance.

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی جو زیرِ التواء مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہونگے، جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دیگر رہا کیا جائے، سزاؤں پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

Donald Trump named TIME’s 2024 Person of the Year

Donald Trump’s historic political comeback earns him TIME’s 2024 Person of the Year, reshaping American and global politics with bold populist leadership.
Commentaryطاقت کا تبدیل ہوتا ہوا توازن
spot_img

طاقت کا تبدیل ہوتا ہوا توازن

A rapidly evolving change in the balance of power in Pakistan is taking place, writes Hammad Hassan

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

خدا کی زمین واقعی ان پر تنگ کر دی گئی تھی کینسر کی مریضہ بیوی لندن کے ایک ہسپتال میں تڑپ رہی تھی۔ باپ توہین آمیز انداز میں اپنے ساتھ اپنی بیٹی کو بھی گرفتار ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اڈیالہ جیل میں تین بار کا منتخب وزیراعظم نوازشریف شدید پریشانی اور بے بسی کے ساتھ جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست کر رہا تھا کہ میری اھلیہ کلثوم نواز کی سانسوں کی ڈور کٹنے والی ھے براہ کرم مجھے فون پر آخری بات کرنے دی جائے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کی آنکھیں بھر آتی ہیں اور وہ کچھ کہے بغیر اپنے کمرے کی طرف جا کر فون ملا لیتا ہے اور ایک فون کال کی اجازت کےلئے التجا کرتا ہے لیکن دوسری طرف سے ایک کرخت آواز اسے ڈانٹ کر اپنے کام سے کام رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ انہی دنوں ایک سہ پہر کو کلثوم نواز کی موت کی خبر موصول ہوتی ہے تو آدھا خاندان جلا وطن ہے اور آدھا خاندان جیلوں میں پڑا ہے کیونکہ وہ “چور اور ڈاکو” ہیں۔

یہ غالبا انسانی تاریخ کی وہ پہلی موت ہے جس کا “سرکاری سرپرستی” میں بے ضمیر اینکروں اور بے دماغ کھوپڑیوں کے ذریعے با قاعدہ طور پر طنز و تحقیر گالم گلوچ اور الزام و دشنام کے ساتھ “جشن” منایا گیا۔ یہ بھی انہی ستم کیش موسموں کے آس پاس کی بات ہے کہ عمران خان اشارہ پا کر چند سو لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک ہڑبونگ مچانے لگتا ہے طاھر القادری قبریں کھودنے کا حکم دیتا ہے وزیراعظم ہاوس اور پی ٹی وی پر حملے ہوتے ہیں پولیس کے افسروں اور سپاہیوں پر ایک غول لاٹھیاں برسانے لگتا ہے۔ شیخ رشید جلاو اور آگ لگا دو کا بیانیہ جاری کرتا ہے خادم رضوی فیض آباد بند کر دیتا ہے عامر لیاقت حسن نثار اور گیلا تیتر جیسے لوگوں کو اینکروں اور صحافیوں کا روپ دے کر سکرینوں پر بد ترین بہتان طرازی الزامات اور گالم گلوچ کے لئے بٹھا دیا جاتاہے منتخب وزیراعظم پر ایک شخص جوتا پھینک کر “جہاد” کرتا ھے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی جاتی ہے احسن اقبال کو کافر کہہ کر گولی مار دی جاتی ہے شاھد خاقان عباسی اور سعد رفیق کو کرپٹ کہہ کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور رانا ثناء اللہ کو ہیروئن کا سمگلر بنا دیا جاتا ہے۔ بات صرف سیاسی ساتھیوں تک نہیں رہتی بلکہ جو حق گو صحافی اور لکھاری ہوتے ہیں ان میں سے کسی کا روزگار چھینا جاتا ہے کسی کو گولی ماری جاتی ہے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے کسی کے بچے پر گاڑی چڑھا دی جاتی ہے اور کسی کو کسی سول افسر کے ذریعے حملے سے “خبردار” کر دیا جاتا ہے۔

ریجیکٹڈ اور ڈان لیکس کے ساتھ بدنام زمانہ ثاقب نثار بھی میدان میں اتارے جاتے ہیں جن کے عدالتی فیصلے بعد میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی جج رانا شمیم اور جج ارشد ملک کی گواہیاں اگل دیتا ہے۔ یہی وہ تراشا ہوا بد ترین منظر نامہ تھا جس سے ہائبرڈ رجیم کا وہ اژدھا برآمد ہوا جس نے اس ملک کی تہذیب سے روایت اور جمہوریت سے معیشت تک سب کچھ ہڑپ کر لیا۔ لیکن اب کے بار ارتقائی عمل اور بدلتے ہوئے منظر نامے نے عام لوگوں کو روایتی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہن سازی کی بجائے پس منظر سے شناسائی اور حقائق کے ادراک کی طرف موڑ دیا اور یہی وہ عوامل تھے جس نے آئین و قانون کی بالادستی اور سول سپر میسی کے بیانیئے کو مبالغہ آمیز طاقت فراہم کر دی جو نواز شریف کے ڈٹنے کی بنیاد بنا۔

پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایسٹبلشمنٹ خود کو جتنا طاقتور سمجھ رہی تھی اتنی طاقتور وہ اب رہی نہیں لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو جتنا کمزور سمجھتے رہے اتنے کمزور وہ رہے بھی نہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ بیانیئے اور پارٹی کو ایک لمحے کے لئے بھی فکری یا عددی فقدان کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ مقبولیت کی جانب گامزن دکھائی دیے۔ گویا طاقت کے توازن نے نہ صرف نواز شریف کی اہمیت (بلکہ اس کے سیاسی رفقاء کی اہمیت کو بھی) بڑھایا بلکہ نئے سیاسی منظر نامے اور ڈیولپمنٹ کی بنیاد بھی یہی عنصر یعنی “طاقت کا توازن ” بنا جس نے فوری طور پر خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو “آر ٹی ایس سسٹم” اور “ڈسکہ دھند” جیسی قباحتوں سے اب کے بار محفوظ رکھا۔ گو کہ اس غیر متوقع انتخابی نتائج کو بارڈر پار کے معاملات سے جوڑنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن در اصل یہ اپنے خلاف سامنے آنے والے عوامی ردعمل سے توجہ ہٹانے کے لئے منصوبے کے تحت ایک شو شہ چھوڑا گیا جسے سنجیدہ فکر طبقات نے کوئی اہمیت دینا بھی گوارا نہیں کیا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ مہ و سال میں جمہوری قوتوں خصوصا نواز شریف اور اس کے خاندان اور سیاسی رفقاء نے ناقابل بیان صعوبتوں اور مشکلات کا سامنا کیا لیکن ماننا پڑے گا کہ انہی حالات سے سول سپر میسی کی دیو ہیکل سیاسی طاقت بھی برآمد ہوئی جو خالی خولی نعروں اور جذباتی آئیڈیل ازم کی بجائے شعور اور حقائق کے ادراک سے لیس عوامی قوت بنا۔ یہی منظر نامہ ہی ہے جس نے ریاست کے اندر طاقت کے روایتی پلڑے کو نہ صرف بہت حد تک ہلکا کر لیا بلکہ دوسرے پلڑے کو طاقت اور اہمیت بھی فراہم کرنا شروع کیا۔ جس سے روایتی طور پر آمرانہ قوتوں کے مدگار منطقے بھی جمود سے نکلنے لگے۔ مشلا اگر اعلی عدلیہ میں ثاقب نثار جیسے لوگ بیٹھے نظر آئے تو وہاں جسٹس فائز عیسی بھی دلیر منصفی کا علم لہراتا دکھائی دیا۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے “فتوحات” اور وہاں حسن نثار اور ارشاد بھٹی جیسے قبیلے کی آمد اور طوفان تہمت طرازی کے ذریعے ایک بازار گرم ہوا۔ تو دوسری طرف سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلز پر موجود حق گو اور بہادر لکھاریوں اور یو ٹیوبرز نے فرسودہ بیانیئے اور اس کے علم برداروں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ یہی کام (لیکن ایک اور قرینے سے) وکلاء ڈاکٹر اور طالبعلم تنظیموں نے بھی آگے بڑھانا شروع کیا جس نے رائے عامہ کو مثبت حوالے سے حد درجہ متاثر بھی کیا۔ گویا آمرانہ قوتوں کے مقبوضہ منطقے اب یا تو مکمل طور پر مقبوضہ رہے نہیں یا جمہوری قوتوں کو متبادل مورچے ہاتھ آئے جس کا وہ بروقت اور بھرپور فائدہ بھی اٹھانے لگے۔ جس نے طاقت کو توازن کی جانب دھکیلا۔

اب اگر ہم ایک غیر جذباتی انداز سے موجودہ منظر نامے خصوصا مسلم لیگ کے ساتھ ریاستی رویئے کا بغور جائزہ لیں تو اس میں پہلے کی نسبت ایک واضح تبدیلی کا عنصر نمایاں ہے یعنی ریاستی جبر بہت حد تک مفقود ہو چلا بلکہ تازہ ترین خبریں تو ایسٹبلشمنٹ اور بیانیئے کے علمردار جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان گفت و شنید اور ڈیولپمنٹ کے اشارے بھی دینے لگا ہے۔ لیکن اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ نئے رابطے اور اشارے ایسٹبلشمنٹ کے کسی محبت کا شاخسانہ ہرگز نہیں بلکہ یہ سب کچھ طاقت کے توازن اور پلڑوں کی برابری سے پھوٹنے لگا ہے اس لئے نواز شریف کو غیر ضروری طور پر رویئے میں نرمی کی قطعا ضرورت نہیں کیونکہ حالات فطری طور پر بیانیئے کے حق میں رواں دواں ہیں اور اسے اپنے فطری ٹریک سے اتارنا کم از کم دانشمندی نہیں ہوگی۔

یہ بات بھی ذھن نشین ہونی چاہئے کہ وقت کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے طاقت کے توازن نے پہلے فریق کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے جس سے بعض لوگ خوف اور عدم تحفظ کے معنی بھی نکالنے لگے ہیں لیکن ضروری یہ ہے کہ معاملات کو کئی عشرے پہلے کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے موجودہ حالات اور نئی فضا کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اگرچہ دانشور حضرات کا ایک موثر حلقہ اس حوالے سے قدرے خو ف کا شکار ہے کہ نئے منظر نامے سے ایسٹبلشمنٹ کہیں بیانیئے کی تحلیل اور اپنی بقاء کا سامان پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے لیکن اس حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اپنے اقتدار سے اپنی اہلیہ تک بہت کچھ گنوا بیٹھا ہے۔

خاندان اور ساتھیوں کی قید و بند توہین آمیز سلوک اور بد ترین میڈیا ٹرائل اسی ھائبرڈ ریجیم کے منصوبے سے پھوٹے تھے جس کے مد مقابل نواز شریف ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے اور اسی منظر نامے نے اسے مبالغہ آمیز مقبولیت سے بھی ہمکنار کیا۔ اس لئے کیسے ممکن ہے کہ پسپا ہوتے حریف سے کمزور شرائط پر معاملہ کیا جائے۔ گو کہ لندن سے قریبی رابطوں کی دعویداری ہرگز نہیں لیکن پورے اعتماد کے ساتھ اتنا ضرور بتاتا چلوں کہ اب کے بار اقتدار اور حکومت کو ایک ثانوی اور غیر اہم موضوع کی حیثیت حاصل ھے (بلکہ اسے شفاف انتخابات سے منسلک کر دیا جاتا ہے)۔

جبکہ اہم ترین اور ضروری نکات وہی ہیں جن کے لئے طویل اور خوفناک ریاستی جبر کا سامنا کیا گیا۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: