لاہور— استحکامِ پاکستان پارٹی کے مرکزی راہنما عبدالعلیم خان نے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے پاس گینگ آف فائیو تھا اور تمام فیصلے وہی گینگ کیا کرتا تھا جس میں جنرل فیض حمید، اعظم خان، بشریٰ بی بی، فرح گوگی اور ایک پانچواں بڑا آدمی پراپرٹی ٹائیکون شامل تھا۔
پنجاب میں ڈی سی، کمشنر اور ڈی پی او کی تعیناتی بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح گوگی اور اس کا گینگ کرتا تھا، عثمان بزدار کو جیل میں ہونا چاہیے، عثمان بزدار سے پولیس یا دیگر ادارے پوچھ لیں تو وہ بتا دیں گے کہ رشوت کہاں پہنچاتے تھے، عثمان بزدار کے اثاثے اربوں تک پہنچ گئے، تین چار سالوں میں پنجاب کا بیڑا غرق کر دیا گیا، میں نے تحریکِ انصاف کے دور میں عثمان بزدار کے کارنامے بیان کیے تو مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔
عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ لگانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز خٹک تھے، عمران خان سمجھتے تھے کہ پرویز خٹک نے بطور وزیرِ اعلیٰ ان کے احکامات کی صحیح طریقہ سے تعمیل نہیں کی اور وہ چاہتے تھے کہ پنجاب میں کوئی ایسا شخص وزیرِ اعلیٰ ہو جس کی اپنی کوئی سمجھ نہ ہو لہذا عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔
راہنما استحکامِ پاکستان پارٹی عبدالعلیم خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد معاملہ کو بیلنس کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو نااہل کیا گیا، اس میں جنرل فیض حمید نے مرکزی کردار ادا کیا جبکہ عمران خان آن بورڈ تھے، ہم نے عمران خان کو نجات دہندہ سمجھا تھا، ہم فریب کا شکار ہو کر ان کے پاس گئے تھے، ہم نے سمجھا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے ذریعہ پاکستان ترقی کر سکتا ہے، ہم نے عمران خان پر اعتبار کیا تھا، میں برملا کہتا ہوں کہ ہم سے دھوکہ ہوا، کچھ لوگوں کو اس کا احساس ہو چکا ہے اور کچھ کو ابھی تک نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بہت سارے فیصلوں کے پیچھے بشریٰ بی بی کا علم یا عمل تھا، بدقسمتی سے عمران خان سیاست اور ریاست سے متعلق اہم فیصلے بشریٰ بی بی کے کہنے پر کرتے تھے، یہاں تک کہ کب گھر سے نکلنا ہے اور کب واپس آنا ہے، کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا، کس سے ملنا ہے اور کس سے نہیں ملنا، یہ سب عمران خان بشریٰ بی بی سے پوچھ کر کرتے تھے، عمران خان توہم پرست بن گئے تھے، بشریٰ بی بی نے عمران خان سے کہا تھا کہ کسی جنازے میں نہیں جانا اور کسی موت پر نہیں جانا اسی لیے عمران خان کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کی میتوں پر نہیں گئے تھے اور کہا تھا کہ پہلے انہیں دفناؤ پھر میں آؤں گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ جو باتیں کر رہے ہیں وہ تحریکِ انصاف میں سب کو معلوم ہیں اور یہ کہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور شیریں مزاری سے قرآن اٹھوا کر پوچھ لیں کہ عبدالعلیم کی باتیں جھوٹی ہیں یا سچی ہیں۔
عبدالعلیم خان نے کہا کہ ہمارا وہی منشور ہو گا جو تحریکِ انصاف کا تھا کیونکہ وہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین کا ذاتی منشور نہیں تھا بلکہ ہم سب نے مل کر بنایا تھا، ہم اکتوبر میں ہی الیکشن چاہتے ہیں، ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارا کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا عمران خان سے بہت پرانا تعلق ہے، میں شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کیلئے ڈونرز میں شامل تھا، عمران خان نے ایک “عمران خان فاؤنڈیشن” بھی بنائی تھی اور اس کا پہلا چیک بھی میں نے ہی دیا تھا، میں آج بھی شوکت خانم میموریل ہسپتال کا سب سے بڑا ڈونر ہوں، میں نے 2011 کا مینارِ پاکستان جلسہ عمران خان کے کہنے پر ہی آرگنائز کیا تھا، میں نے چار دن قبل ہی انتظامات مکمل کر لیے تھے مگر تیس اکتوبر کے بعد ہی ان کا رویہ تبدیل ہو گیا تھا، میں پھر بھی سمجھتا تھا کہ عمران خان کا ساتھ دے کر ہم ایک خوبصورت پاکستان بنا سکتے ہیں، 2018 سے پہلے والا عمران خان بالکل مختلف تھا۔
سانحہ 9 مئی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آئندہ دنوں میں مزید لوگ استحکامِ پاکستان پارٹی میں شامل ہوں گے جن میں تحریکِ انصاف کے بڑے فعال نام بھی ہوں گے مگر 9 مئی کے حملوں میں براہِ راست ملوث افراد کو اور حملوں کیلئے انہیں اکسانے والوں کو استحکامِ پاکستان پارٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔