اسلام آباد—سینیٹ میں آرمی ایکٹ 1952 میں ترامیم کا بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا، گیارہ صفحات پر مشتمل بل وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے پیش کیا جس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کیلئے فوج کو بدنام کرنے یا نفرت پھیلانے پر سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
جمعرات کو سینیٹ میں کثرتِ رائے سے منظور ہونے والے بل کے مطابق صدرِ مملکت فوج اور اس کے ذخائر کی نشو و نما کریں گے، صدرِ مملکت کے پاس ہی فوج میں کمیشن دینے کا اختیار ہو گا مگر غیر ملکی شہریت یا دوہری شہریت کے حامل اور 18 برس سے کم عمر افراد کمیشن کے مستحق نہیں ہوں گے۔
بل کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس فوج کے متعلق کمانڈ اینڈ کنٹرول کے اختیارات ہوں گے، آرمی ایکٹ 1952 کی شق 18 میں ہونے والی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت آرمی چیف کی مشاورت سے ضرورت کے تحت یا غیر معمولی صورتحال یا جنگی حالات میں کسی بھی فوجی آفیسر کی عمر 60 برس ہونے تک اس کی ملازمت برقرار رکھ سکے گی۔
آرمی ایکٹ 1952 کی شق 176 میں ترمیم کے بعد اب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سمیت کسی بھی آرمی آفیسر کیلئے تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے علاوہ “ریٹینشن” یعنی عہدہ یا ملازمت برقرار رکھنے کا لفظ بھی شامل کر دیا گیا ہے جبکہ آرمی چیف قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کی ہدایات جاری کر سکے گا۔
بل کے مطابق فوج کے انتظامی معاملات آرمی چیف کی ذمہ داری ہوں گے اور آرمی چیف اپنی ذمہ داریاں یا اختیارات کسی بھی ماتحت آفیسر کو تفویض کر سکے گا۔
آرمی ایکٹ 1952 کے شق 26 اے میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری حیثیت میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کی سیکیورٹی اور مفاد کے متعلق حاصل ہونے والی معلومات کو ظاہر کرنے پر پانچ سال تک قید بامشقت کی سزا ہو سکتی ہے تاہم آرمی چیف یا بااختیار فوجی آفیسر کی طرف سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات ظاہر کرنے پر سزا نہیں ہو گی۔
آرمی ایکٹ کی شق 26 بی کے تحت کوئی بھی فوجی آفیسر ملازمت سے سبکدوشی، برطرفی یا مستعفی ہونے کے بعد 2 برس تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکے گا جبکہ حساس اداروں میں کام کرنے والے افسران کیلئے اس پابندی کی مدت 5 برس ہو گی، اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو 2 برس تک قید بامشقت کی سزا ہو گی۔
سینیٹ میں کثرتِ رائے سے منظور ہونے والے بل میں آرمی ایکٹ کے حوالہ سے پہلی بار مفادات کے ٹکراؤ کی شق بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت کوئی بھی فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی چیف یا مجاز افسر کی اجازت کے بغیر فوج کی سرگرمیوں کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ رکھنے والے کسی بھی ادارہ کے ساتھ ملازمت یا مشاورت نہیں کر سکے گا جبکہ خلاف ورزی کرنے والے کو 2 برس تک قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا ہو گی۔
شق 55 بی کے تحت الیکٹرونک جرائم کو بھی شامل کیا گیا ہے، کوئی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر الیکٹرونک، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر فوج کو بدنام کرنے یا فوج کی تذلیل کرنے والی کوئی بات نہیں کر سکے گا جبکہ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف پیکا قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
اسی طرح شق 55 سی کے تحت فوج کو بدنام کرنے، فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے یا ابھارنے اور فوج کی تضحیک کرنے پر 2 برس تک قید اور جرمانہ کی سزا ہو گی۔