یروشلم (تھرسڈے ٹائمز) – اسرائیلی اخبار ’’دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ میں لکھے گئے آرٹیکل کیمطابق پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اسرائیل سے متعلق پاکستانی عوام کی رائے اور پاکستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی کے برعکس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلئے اپنے خیالات میں وسعت رکھتے ہیں، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو عمران خان کی آزادی کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
دی ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کے برطانوی گولڈ سمتھ خاندان بالخصوص جمائما گولڈ سمتھ اور زیک گولڈ سمتھ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جبکہ گولڈ سمتھ خاندان یہودیوں اور اسرائیل نواز قوتوں کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے ہیں، عمران خان کی گولڈ سمتھ خاندان کے ساتھ اس قربت نے اسرائیل سے متعلق ان کے مؤقف میں تبدیلی کیلئے اہم کردار ادا کیا۔
اسرائیلی اخبار کے آرٹیکل کیمطابق مطابق گولڈ سمتھ خاندان برطانیہ کی اشرافیہ کا حصہ ہے، زیک گولڈ سمتھ برطانوی سیاست کا حصہ رہے ہیں جبکہ انہوں نے مسلمان امیدوار صادق خان کے مقابلہ میں لندن کے میئر کیلئے بھی الیکشن میں حصہ لیا جس میں عمران خان نے زیک کی بھرپور حمایت کی، گولڈ سمتھ خاندان مغربی اشرافیہ میں وسیع اثر و رسوخ رکھتا ہے جبکہ جمائما اور زیک کے ساتھ قربت نے عمران خان کو اسرائیل سے متعلق ایک مختلف نقطہِ نظر فراہم کیا۔
یروشلم میں قائم بین الاقوامی سطح کے اسرائیلی اخبار میں لکھے آرٹیکل کیمطابق یہ رپورٹس امکانات ظاہر کرتی ہیں کہ عمران خان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں جس کا مقصد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مشرقِ وسطٰی میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہو سکتا ہے تاہم عمران خان کیلئے اسرائیل سے متعلق پاکستانی پالیسی کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
دی ٹائمز آف اسرائیل میں لکھا ہے کہ پاکستان طویل عرصہ سے فلسطینی کاز کا کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک سے زیادہ اور مضبوط حامی رہا ہے، پاکستان کا یہ مؤقف اس کی بطور اسلامی جمہوریہ شناخت اور امتِ مسلمہ یعنی عالمی اسلامی برادری کے ساتھ اس کی مضبوط وابستگی میں گہری جڑیں رکھتا ہے جبکہ تاریخی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تصور پاکستان کی شناخت کے منافی سمجھا جاتا رہا ہے۔
آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کا فلسطین کے حق میں موقف صرف سیاسی نہیں بلکہ فلسطین کی حمایت پاکستانی معاشرے اور عوامی رائے میں گہرائی سے سرایت کر چکی ہے جبکہ یہ پاکستانی حکومتوں کی مستقل پالیسیز میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جنہوں نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اقدامات کی کھلے عام مذمت کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات سے انکار کیا ہے، پاکستان نے اقوامِ متحدہ جیسے عالمی فورمز پر بھی فلسطینی ریاست کی بھرپور حمایت کی ہے۔
اسرائیلی اخبار میں لکھے گئے آرٹیکل کیمطابق پاکستان کے اسرائیل مخالف جذبات کی شدت کا سراغ 1947 میں ملک کی بنیاد سے لگایا جا سکتا ہے جب پاکستان نے خود کو اسلامی دنیا کی قیادت کے طور پر قائم کیا اور ان مسلم ممالک کے ساتھ صف بندی کی جو اسرائیل کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے، یہ اتحاد اس وقت مزید مضبوط ہوا جب پاکستان تنطیم تعاون اسلامی (او آئی سی) اور دیگر اسلامی بلاکس کا رکن بنا جہاں فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔
دی ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستانی عوام کی توقعات اور پاکستانی دیرینہ خارجہ پالیسی کے مطابق بظاہر فلسطین کی حمایت برقرار رکھی اور فلسطین میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی تاہم انہوں نے عوام کے سامنے اپنے بیانات اور پسِ پردہ سفارت کاری میں ایک توازن بھی برقرار رکھا۔
نامور اسرائیلی اخبار میں لکھا ہے کہ عمران خان کی عملی سیاست خارجہ پالیسی میں ان کے اقدامات میں بھی نظر آتی ہے جہاں انہوں نے چین اور سعودی عرب جیسے پاکستان کے روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے کی کوشش کی اور پاکستان کے مفادات کیلئے مخالف ریاستوں کے ساتھ بھی روابط قائم کیے، یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان اسرائیل سے متعلق پاکستانی مؤقف پر نظرِ ثانی کیلئے اپنے خیالات میں وسعت رکھتے ہیں۔
آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کی مغربی تعلیم اور مختلف ثقافتی و سیاسی دائروں میں داخل ہونے کی صلاحیت انہیں اسرائیل اور مسلم ممالک کے درمیان ممکنہ ثالث کے طور پر منفرد بناتی ہے، اگرچہ عمران خان کیلئے اسرائیل سے متعلق پاکستانی پالیسی کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا جس میں انہیں مذہبی و عوامی قوتوں کی جانب سے بھرپور ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم اصلاحات کے حوالہ سے ان کا ماضی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں ایسے چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔
دی ٹائمز آف اسرائیل میں لکھے گئے آرٹیکل کیطابق ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں جن کے مطابق عمران خان نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار کرنے کیلئے گولڈ سمتھ فیملی کے ذریعہ اسرائیلی حکام کو پیغامات بھیجے جبکہ ان پیغامات میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے اور پاکستان میں مذہبی معاملات کو اعتدال پر لانے کیلئے عمران خان کی رضامندی کا اشارہ ملتا ہے۔
آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں واپس آتے ہیں تو مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کیلئے عمران خان کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نظریاتی طور پر ان سے اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات میں اسی طرح کا کردار ادا کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے، ان کے ذاتی تعلقات اور سٹریٹجک نقطہِ نظر کو اسرائیل اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان ثالثی کیلئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے جس سے ایک وسیع تر علاقائی تنظیم سازی میں مدد مل سکتی ہے۔
اسرائیلی اخبار میں لکھے گئے آرٹیکل کیمطابق اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یہ یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان دوبارہ پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کیلئے آزاد ہوں اور وہ آواز بنیں جو اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرتی ہے، عمران خان کی منفرد پوزیشن اور وسیع سوچ اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے