چیف جسٹس کا انتخاب پہلے 3 ججز میں سے ہو گا، مدتِ ملازمت 3 برس ہو گی، وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ

چیف جسٹس کا انتخاب پہلے 3 ججز میں سے ہو گا، مدتِ ملازمت 3 برس ہو گی۔ سپریم کورٹ کی سطح پر آئینی بینچز بنیں گے۔ ایک چیف جسٹس نے سوموٹو کے دروازے کھول دیئے، منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا گئے، ہم نے یہ سلسلہ بند کرنا ہے، وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ۔

اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بِل سینیٹ میں پیش کر دیا۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا جس کے آغاز پر نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے معمول کی کارروائی ملتوی کرنے کی تحریک پیش کی جس کو ایوان نے منظور کر لیا، پھر وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کا بِل پیش کیا جبکہ سینیٹ اجلاس میں موجود کسی بھی رکن نے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے بِل کی مخالفت نہیں کی۔

تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی ہے

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے مسودہ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ طویل مشاورت کی ہے اور مشاورت کے بعد متفقہ مسودہ تیار کیا گیا اور اسے وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کیا گیا، سینیٹ میں ضمنی ایجنڈا تمام ارکان کے سامنے رکھ دیا گیا ہے، اعلٰی عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ تبدیل کیا گیا اور اس میں پارلیمنٹ نے بڑی محنت اور غور و خوض کے بعد ایک ایسا طریقہ کار متعارف کرایا جس میں یہ ممکن بنایا گیا کہ اعلٰی عدلیہ میں ججز کی تقرری کو شفاف اور میرٹ کے مطابق کیا جائے۔

ساتھ والی عمارت سے 18ویں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ پر حملہ ہوا

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل اس طرح کی گئی کہ اس میں متعلقہ شراکت دار ہوں جبکہ صدر اور وزیراعظم نے اپنا اختیار چھوڑ کر پارلیمنٹ کو دیا لیکن اسی دوران سپریم کورٹ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کروائی گئی جسے فوری سماعت کیلیے منظور کر لیا گیا اور اس درخواست کی سماعتوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نظام میں توازن پارلیمنٹ کے ساتھ والی عمارت (سپریم کورٹ) کو منتقل نہیں کریں گے تو یہ ترمیم منسوخ کر دی جائے گی، یہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور آزادی پر کھلا عدمِ اعتماد اور کسی حملے سے کم نہیں تھا، ان معروضی حالات میں 19ویں ترمیم کی گئی اور اس 19ویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن کا جھکاؤ اعلٰی عدالت کی طرف کر دیا گیا اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل نے کئی بار اس حوالے سے مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا گیا کہ اس نظام سے زیادہ بہتر نظام اس وقت کام کر رہا تھا جب ججز کی تقرری وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کیا کرتے تھے، اس پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تجویز کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں مناسب ترامیم کی جائیں اور اس کے بعد پچھلے 6 سے 8 ہفتوں میں مختلف ملاقاتوں کے بعد اس کمیشن کی جو شکل بنی ہے وہ آج اس بِل کی صورت میں آپ کے سامنے رکھی جا رہی ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا طریقہ کار

وفاقی وزیرِ قانون نے بتایا کہ مجوزہ بِل کے مطابق جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز پر مشتمل ہو گا، جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکانِ پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے تجویز کیا گیا ہے کہ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی بینچ کی سربراہی کرنے والے ججز، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز، وفاقی وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، پاکستان بار کونسل کا 2 سال کیلئے نامزد کردہ کم ازکم 15 سالہ تجربے کا حامل وکیل اور دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان اس کمیشن میں شامل کیے جائیں گے اور اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو گی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔

وزیرِ قانون نے کہا کہ مجوزہ ترمیم میں سپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر پورا اترنے والے پارلیمنٹ سے باہر کی خاتون یا اقلیتی رکن کو نامزد کر سکیں گے، کمیشن میں صوبوں کی نمائندگی کو برقرار رکھا گیا ہے، ماضی میں پارلیمانی کمیٹی میں ہم نے کئی فیصلوں کو آٹھ صفر سے کیا، صرف ایک جج نے پارلیمانی کمیٹی کے متفقہ فیصلے کو اٹھا کر پھینک دیا، ایک چیف جسٹس نے سوموٹو کے دروازے کھول دیئے، ہماری عدالتِ عظمٰی نے کروڑوں پاکستانیوں کے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھجوایا، قائدِ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف بھی اس کا شکار ہوئے اور موجودہ چیئرمین سینٹبھی اس کا نشانہ بنے، ہم نے اس سلسلے کو بند کرنا ہے، آئینی بینچز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا، وزیراعظم کو نکالنے کا آئینی طریقہ کار موجود ہے اور ہم نے وہ طریقہ اپنایا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایکسٹینشن سے انکار کیا

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ سے تین ملاقاتیں ہوئیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ ایکسٹینشن میں دلچسپی نہیں رکھتے اور مدت مکمل کر کے چلے جائیں گے، بند دروازوں کے پیچھے جو معاملات ہوتے ہیں ہم انہیں نہیں مانتے، بروقت انصاف نہیں ملتا، مقدمات پر کئی سال لگ جاتے ہیں، ججز تقرری میں شفافیت کیلئے سب ایک کمیشن میں بیٹھ کر فیصلہ کریں گے، جوڈیشل کمیشن کے پاس ججز کی کارکردگی جانچنے کا بھی اختیار ہو گا، جو ججز کام نہیں کرتے اور جن کی کارکردگی درست نہیں وہ کمیشن کو رپورٹ کریں گے۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت نے آئینی ترمیمی بِل کے متفقہ مسودہ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی پانچ مزید ترامیم کو بھی تسلیم کیا جن میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ترامیم ہیں، آج 26ویں آئینی ترمیمی بِل کو منظور کیا جائے، آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔

سینیٹ اجلاس سے قبل

سینیٹ اجلاس سے قبل وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کیلئے تمام پارلیمانی لیڈرز نے مختلف اوقات میں ملاقاتیں کیں، خورشید شاہ صاحب نے سپیکر قومی اسمبلی کی ہدایت پر بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں معاملات کو بہت تحمل سے دیکھا اور اس ساری کاوش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی انتھک محنت قابلِ تعریف ہے، بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف اتحادی جماعتوں سے رابطہ کیا بلکہ دونوں جانب روابط کا سلسلہ جاری رکھا۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے جمعیت علمائے اسلام (ف) سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی مسلسل رابطہ رکھا اور آئینی پیکج پر اتحادی جماعتوں کے لارجر مسودہ پر جے یو آئی کی قانونی ٹیم سے مذاکرات کیے، مولانا فضل الرحمٰن نے اس کے بعد میاں نواز شریف صاحب سے ملاقات کیلئے جاتی امراء کا دورہ کیا تھا جہاں وزیراعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری بھی اپنی لیگل ٹیمز کے ہمراہ موجود تھے، وہاں آئینی ترمیم سے متعلق وسیع مشاورت کے بعد بھی ہم نے پریس ٹاک کی تھی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اسلامی قوانین کے حوالے سے تجاویز مسودہ میں شامل

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اس کے بعد ہم نے واپس آ کر اپنی اتحادی جماعتوں کو مسودے پر اعتماد میں لیا تھا اور آج کابینہ نے جس مسودے کی منظوری دی ہے یہ وہی متفقہ مسودہ ہے البتہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے آئین میں اسلامی قوانین کے حوالے سے پانچ ترامیم کی تجاویز پیش کی ہیں، شریعت کورٹ کے وہ ججز جو سپریم کورٹ میں تعینات ہونے کے اہل ہوں ان کے حوالہ سے آئین خاموش تھا، ان کے بارے میں ایک شق ڈالی گئی ہے، قانون سازی کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی جو رپورٹس آتی ہیں ان کی ٹائم لائن دو سال تھی جس کو ایک سال کیا گیا ہے، سود کے بارے میں شریعت کورٹ کے فیصلے پر پالیسیز پر عمل نہیں ہو رہا تھا اس پر عمل درآمد کو شامل کیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے بھی سود کے خاتمہ سے متعلق آبزرویشن دی تھی، یکم جنوری 2028 سے سودی نظام کا خاتمہ ہو جائے گا، شریعت کورٹ کی اپیل سپریم کورٹ میں جاتی ہے اس کے طریقہ کار میں بھی کچھ ابہام تھا جس کو دور کیا گیا ہے، یہی ترامیم اس ڈرافٹ کا حصہ تھیں جو کمیٹی نے منظور کیا اور اگر وہ ترامیم جمعیت علمائے اسلام (ف) جمع کرا کے ایوان میں لائے گی تو ہم اس پر ووٹ کریں گے۔

سپریم کورٹ کی سطح پر آئینی بینچز بنیں گے

وفاقی وزیرِ قانون نے بتایا کہ آئینی ترمیم کے مسودہ میں 26 نکات شامل ہیں، سپریم کورٹ کی سطح پر آئینی بینچز ہیں اور صوبوں میں بھی متعلقہ قانون کے ذریعہ آئینی بینچز کا میکانزم فراہم کر دیا گیا ہے، صوبوں میں آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار صوبے کی منتخب اسمبلی کو دیا گیا ہے اور یہ پیپلز پارٹی کا مشورہ تھا کہ یہ اختیار صوبے کو دیا جائے کہ وہ آئینی بینچز کا قیام چاہتے ہیں یا نہیں اور اس کیلئے ضروری ہو گا کہ پوری اسمبلی 51 فیصد کے ساتھ قرارداد منظور کرے تو وہ نافذ العمل ہو جائے گی۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ آئینی بینچز میں نامزدگیوں کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن کے پاس ہو گا، جوڈیشل کمیشن کی نئی ساخت کے مطابق اس میں چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز شامل ہیں، چار پارلیمنٹیرینز جن میں سے دو سینیٹ اور دو قومی اسمبلی سے ہوں گے جبکہ دونوں ایوانوں سے حکومتی و اپوزیشن بینچز سے ایک ایک رکن ہو گا، وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل بدستور اس کا حصہ ہوں گے۔

مسودہ میں ججز کی کارکردگی کی جانچ کے حوالہ سے ترامیم شامل ہیں

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ججز کی کارکردگی کی جانچ کے حوالہ سے ترامیم شامل ہیں کیونکہ عوام کی شکایت آتی رہی ہیں، آٹھ دس سالوں تک لوگوں کے کیسز زیرِ التواء رہتے ہیں تو ایسے ججز جن کی کارکردگی غیرمؤثر ہے ان کے کیسز سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے جائیں گے اور وہ 6 ماہ کے اندر فیصلہ کریں گے کیونکہ یہ بھی شکوہ رہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں سالہا سال فیصلے نہیں ہو پاتے۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے طے کیا تھا کہ متفقہ مسودہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی تجاویز کو من و عن پیش کریں گے اور سینیٹ میں طے شدہ مسودہ کے باقی حصہ کو حکومت پیش کرے گی جبکہ قومی اسمبلی میں بل پاس ہونے کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی اس بِل کو منظور کروائیں گے۔

پہلے تین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب ہو گا

چیف جسٹس کی تقرری کے حوالہ سے اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ 12 رکنی کمیٹی، جس میں حکومت اور اپوزیشن بھی شامل ہیں، دو تہائی کے ساتھ سنیارٹی کی بنیاد پر موجود پہلے 3 ججز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گی، اس سے شفافیت مزید واضح کچھ نہیں ہو سکتا، اگر سب اس پر مل کر فیصلہ کرتے ہیں تو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، بینچ کی تشکیل حکومتیں نہیں کریں گی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کیلئے اگر بینچ بنتے ہیں تو اس کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرے گا۔

چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت 3 برس ہو گی

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت 3 سال طے کی گئی ہے تاہم اگر چیف جسٹس کی عمر 65 برس ہو گئی تو پھر وہ 3 سال سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے آئین بالکل واضح ہے، آج پاکستانی ریاست کیلئے ایک تاریخی دن ہے، آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی کام عجلت میں نہیں ہوا بلکہ ایک ایک شق پر طویل گفتگو کی گئی ہے، کسی سیاسی جماعت کو اس عمل سے باہر نہیں رکھا گیا، آئینی ترمیم کا تقاضا تھا کہ اس پر طویل اور سود مند مشاورت کی جائے اور یہ جمہوریت کا حسن ہے۔

عطاء اللّٰہ تارڑ کا کہنا تھا کہ کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم نے تمام اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا ہے، خاص طور پر پیپلز پارٹ اور چیئرمین بلاول بھٹو کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس حوالے سے خصوصی کوشش کی ہے، ججز کی تقرری اور احتساب کے نظام کو شفاف بنانے کیلئے اور کمیٹی کے اندر سول سوسائٹی کے ارکان بالخصوص خواتین کی شمولیت ایک بڑا سَنگِ مِیل ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: