چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم دور کا اختتام ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جنہوں نے اپنی جرات مندانہ فیصلوں اور آئینی بالادستی کی حمایت سے اپنی پہچان بنائی، پاکستان کے نظام عدل میں گہرے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں۔ ان کے دور میں عدلیہ کو مضبوط بنانے اور اسے شفاف بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات ان کی میراث کا حصہ رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پاکستان کی عدلیہ ایک اہم تبدیلی کے دور سے گزری۔ ان کے فیصلے نہ صرف قانونی نقطہ نظر سے انفرادیت رکھتے ہیں بلکہ ان میں انسانی حقوق، آئینی بالادستی، اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کا بھرپور عکس ملتا ہے۔ ان کے فیصلوں نے عدلیہ میں شفافیت اور آزادی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
عدالتی کیریئر کا آغاز
قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے عدالتی کیریئر کا آغاز بلوچستان ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے کیا، جہاں انہوں نے بنیادی حقوق اور انصاف کے حوالے سے اہم مقدمات میں وکالت کی۔ ان کی جرات مندانہ وکالت اور قانونی فہم و فراست کے باعث انہیں 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا، جس کے بعد بلوچستان میں عدالتی اصلاحات کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔
سپریم کورٹ کا حصہ بننا
2014 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج مقرر کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے کئی اہم اور تاریخی فیصلے کیے جنہوں نے پاکستانی معاشرت، سیاست، اور قانون پر گہرے اثرات چھوڑے۔
نمایاں فیصلے اور مقدمات
فیض آباد دھرنا کیس اور عدالتی خودمختاری
فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس عیسیٰ نے نہ صرف ریاستی اداروں کے کردار پر سوالات اٹھائے بلکہ ان کی آئینی حدود کا تعین کیا۔ اس فیصلے نے پاکستانی عدلیہ کی آزادی اور ریاستی اداروں کے توازن کی یاددہانی کرائی۔ ان کے دور میں یہ کیس عدلیہ کی خودمختاری اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کی علامت سمجھا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کیس: انصاف کا ایک تاریخی لمحہ
عدلیہ کی تاریخ میں ایک منفرد فیصلہ کرتے ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کا دوبارہ جائزہ لیا اور یہ تسلیم کیا کہ بھٹو کو منصفانہ ٹرائل نہیں ملا۔ اس تاریخی فیصلے نے عدالت کے اس اصول کو مضبوط کیا کہ انصاف ہر حالت میں بلا امتیاز فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کیس کی دوبارہ سماعت نے عدلیہ کی خود احتسابی کو فروغ دیا اور پاکستان کی قانونی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ ان کا یہ قدم عدلیہ کی خوداحتسابی اور شفافیت کو فروغ دینے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی کیس: عدلیہ کے وقار کا تحفظ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس شوکت صدیقی کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے عدلیہ کے خود مختار کردار کو اجاگر کیا۔ جسٹس صدیقی نے ریاستی اداروں پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ چیف جسٹس عیسیٰ نے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اس کیس کو ایک اہم مثال بنایا۔ اس فیصلے نے یہ پیغام دیا کہ عدلیہ کو ہر قسم کے سیاسی دباؤ اور مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔
شفافیت اور عدلیہ میں اصلاحات
چیف جسٹس بننے کے بعد، قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے اہم مقدمات کی کارروائیوں کو براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا تاکہ عوامی شمولیت اور عدلیہ کی رسائی میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف عوام کو عدالتی فیصلوں تک رسائی ملی بلکہ عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہوا۔
عدالتی میراث اور ریٹائرمنٹ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کیریئر انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بہترین مثال ہے۔ ان کے فیصلے، جرات مندی، اور عدالتی اصلاحات نے پاکستانی عدلیہ میں ایک مثال قائم کی۔ ان کی خدمات اور کارنامے آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے اور انصاف کے نظام میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے اقدامات نے عدلیہ کو ایک مؤثر ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ایسی عدالتی میراث چھوڑ کر گئے ہیں جو آئینی بالادستی، عدالتی شفافیت، اور انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی ہے۔ ان کی زندگی اور فیصلے نہ صرف پاکستانی عدلیہ بلکہ مستقبل کے ججوں کے لیے مشعل راہ بنیں گے۔ ان کے فیصلوں، ان کی جرات اور آئینی اصولوں کی پاسداری نے انہیں ایک عظیم اور یادگار چیف جسٹس کے طور پر تاریخ میں امر کر دیا ہے۔