واشنگٹن (دی تھرسڈے ٹائمز) — امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایلون مسک کی ایرانی سفیر سے ملاقات کے بارے میں سوال کو غیر متعلقہ قرار دے دیا، ویدانت پٹیل نے صحافی سے کہا کہ یہ سوال نہ صرف موضوع سے ہٹ کر ہے بلکہ آپ کے ساتھیوں کیلئے بےعزتی کے مترادف بھی ہے، صحافی نے ’’دی تھرسڈے ٹائمز‘‘ کی پوسٹ پر ردعمل میں کہا کہ اگر امریکی محکمہ خارجہ میرے سوال کے مقصد کو سمجھتا تو یہ بات چیت آگے بڑھ سکتی تھی لیکن انہوں نے مجھے صحافت اور ساتھیوں کے احترام کا سبق دینا شروع کر دیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل کی واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ سے تعلق رکھنے والی صحافی جلیل آفریدی نے ایلون مسک کی ایرانی سفیر سے نیو یارک میں ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال پوچھا کہ کیا یہ سمجھ سے بالاتر نہیں کہ امریکی حکام کی بجائے ایک دولت مند شخص اپنے تئیں ایران کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے؟
ایلون مسک کی ایرانی سفیر سے نیو یارک میں ہونے والی ملاقات کے حوالہ سے سوال کے جواب میں نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا کہ مجھے آپ کے سوال کی بنیادی وجہ سمجھ نہیں آئی اور میں ایمانداری سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کے سوال کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے جس پر ہم بات کر رہے ہیں، آپ کا اس طرح ایک غیر متعلقہ سوال پوچھنا آپ کے ساتھیوں کیلئے بھی بےعزتی کے مترادف ہے۔
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے مجھے آپ کی بات کی بنیاد سمجھ نہیں آئی، اور ایمانداری سے کہنا چاہوں گا کہ اس کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں جس پر ہم بات کر رہے ہیں۔ آپکا اسطرح سوال کرنا آپکے ساتھیوں کی بے عزتی کے مترادف تھا۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ pic.twitter.com/PH0NOZ9Q50
— The Thursday Times (@thursday_times) December 5, 2024
نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل کے اس جواب پر صحافی جلیل آفریدی خاموش ہو گئے تاہم ’’دی تھرسڈے ٹائمز‘‘ کے ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ سے جب اس گفتگو کی ویڈیو پوسٹ کی گئی تو اس پر ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے جرنلسٹ جلیل آفریدی نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ڈپٹی ترجمان اگر میرے سوال کے بنیادی مقصد کو سمجھ جاتے تو ضرور اسے آگے بڑھاتے تاہم انہوں نے مجھے صحافت اور اپنے ساتھیوں کے احترام سے متعلق سبق دینا شروع کر دیا۔
دی تھرسڈے ٹائمز کی پوسٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے جرنلسٹ جلیل آفریدی نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی صحافی کی اہلیت کیلئے اتنا کافی نہیں کہ جس امریکی انٹیلیجنس آفیسر کی رپورٹس امریکی صدر کے میز تک پہنچتی تھیں اس سے متعلق 2020 میں خبریں میرے ذریعہ ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ میں شائع ہوئیں؟
انہوں نے مزید لکھا کہ امریکہ کے پاس ایک مؤثر محکمہ خارجہ موجود ہے جبکہ ایران سے متعلق صدیوں کی تاریخ پر مبنی رپورٹس موجود ہیں، منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیو یارک میں ایلون مسک کو ایرانی سفیر سے ملاقات کیلئے بھیجا، کیا اس معاملہ میں امریکی محکمہ خارجہ کو نظر انداز کرنا حیران کن نہیں تھا اور کیا اس سے پاکستان جیسے ملک کو فکرمند نہیں ہونا چاہیے جو کہ ایران کا پڑوسی ہے؟
دی فرنٹیئر پوسٹ کے جرنلسٹ جلیل آفریدی نے مؤقف اپنایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر ایران اور چین سے متعلق سخت رویہ اختیار کریں گے کیونکہ یہ دونوں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے پر سب سے بڑے دشمن ممالک ہیں اور یقیناَ شام کی صورتحال کے ساتھ ساتھ یہ معاملات بھی پاکستان پر اثر انداز ہونے والے ہیں۔
جلیل آفریدی نے لکھا کہ ماضی میں جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر تھے تو ان کے داماد اور سینئر مشیر جاریڈ کوشنر نے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کو نظر انداز کرتے ہوئے واشنگٹن ڈی سی کے ایک ریسٹورنٹ میں غیر ملکی عہدیداروں سے ملاقات کی تھی اور یہ طریقہ کار مجھے پسند نہیں آیا تھا، میں نہیں سمجھتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ اسی راستے پر چلتے ہوئے وہی غلطیاں دوہرانی چاہئیں، ایران کے پاس اس پورے خطہ میں اتنے پراکسی گروپس موجود ہیں کہ جن کا مجھے بھی اندازہ نہیں ہے۔