عمران خان نے اپنے تازہ سیاسی بیان میں 22 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ان کے سیاسی کیریئر میں ایک اور غیر روایتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انہوں نے سول نافرمانی کا راستہ اختیار کیا ہو۔ 2014 میں بھی عمران خان نے بجلی کے بل جلا کر ایسی ہی تحریک کا آغاز کیا تھا، جو بالآخر ناکام رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ دس سال بعد دوبارہ اسی حکمت عملی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ماضی کی ناکامی اور حال کے چیلنجز
عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک 2014میں عوام میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ اس وقت ان کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا اور عوام کو سول نافرمانی پر اکسانا تھا، مگر نہ عوام نے بل جلائے اور نہ ہی تحریک کو وہ عوامی حمایت ملی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس کے برعکس یہ تحریک ایک سیاسی مذاق بن کر رہ گئی تھی۔
اب، 2024 میں عمران خان نے دوبارہ اسی راستے کو چنا ہے، لیکن حالات مختلف ہیں۔ وہ جیل میں ہیں، اور ان کی سیاسی جماعت کو ملک گیر مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے پچھلے تمام سیاسی حربے، جیسے کہ امریکی سازش کا دعویٰ، یورپی یونین اور امریکی کانگریس کو خطوط، اور اسلام آباد پر چڑھائی کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ان تمام ناکامیوں کے بعد سول نافرمانی کا اعلان ان کی سیاست کا “آخری کارڈ” معلوم ہوتا ہے۔
کیا سول نافرمانی موجودہ حالات میں موزوں ہے؟
ملکی معیشت کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان میں معیشت کے کئی شعبوں میں بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں؛
مہنگائی کی شرح میں کمی دیکھی جا رہی ہے، اور مستقبل قریب میں مزید کمی کی توقع ہے۔
ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جو معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے، اور عالمی سطح پر پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا کامیاب انعقاد ہوا ہے، جس نے پاکستان کے سفارتی وقار کو بڑھایا ہے۔
یہ تمام عوامل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان آہستہ آہستہ معاشی اور سفارتی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ایسے وقت میں سول نافرمانی کا اعلان سیاسی مقاصد کے بجائے قومی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
عوامی حمایت یا سیاسی انتشار؟
سول نافرمانی کی تحریک کا بنیادی مقصد عوام کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف متحرک کرنا ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان موجودہ حالات میں عوام کو اپنے ساتھ لے جا سکیں گے؟
2014 میں، انہوں نے عوام سے کہا تھا کہ وہ بجلی اور گیس کے بل ادا نہ کریں، لیکن خود ان کی رہائش گاہ کے تمام بل باقاعدگی سے ادا کیے گئے۔ ایسے تضادات نے ان کی تحریک کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے تھے۔
موجودہ حالات میں، جب عوام کو مہنگائی میں کمی، طبی سہولیات کی بہتر فراہمی، اور دیگر سہولتیں میسر آ رہی ہیں، سول نافرمانی کا اعلان عوامی حمایت کے بجائے سیاسی انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔
کیا یہ آخری ترپ کا پتہ ہے؟
عمران خان کے حالیہ سیاسی اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ اس وقت سیاسی بے یقینی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کے پچھلے تمام کارڈز ناکام ہو چکے ہیں، اور سول نافرمانی کا کارڈ شاید ان کی سیاست کا آخری حربہ ہو۔ لیکن اگر یہ بھی ناکام ہوا تو کیا ہوگا؟
امریکی سازش کا دعویٰ ناکام ہوا۔
یورپی یونین کو فیٹف پر خطوط لکھنے کی کوشش ناکام ہوئی۔
امریکی کانگریس کو پاکستان پر پابندیاں لگوانے کے لیے خط لکھنا ناکام رہا۔
آخری کال سمیت اسلام آباد پر چڑھائی کے متعدد کارڈز ناکام ہوئے۔
یہ تمام ناکامیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ عمران خان کے لیے سیاسی میدان میں عوامی حمایت حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سول نافرمانی کا اعلان ان کی سیاست میں ایک نئے موڑ کے بجائے ماضی کی ناکامیوں کا تسلسل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
قومی اتحاد یا سیاسی تقسیم؟
پاکستان اس وقت بین الاقوامی اور داخلی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ امریکی پابندیاں، خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، اور داخلی سیاسی اختلافات کے باعث قومی اتحاد کی ضرورت پہلے سے زیادہ اہم ہو چکی ہے۔ لیکن ایسے وقت میں سول نافرمانی جیسی تحریک کا آغاز قومی استحکام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک ملکی مفادات کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے یا یہ صرف ان کی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے؟ سنسنی خیز اعلانات اور جذباتی نعروں کے ذریعے سیاست کو مزید آگے لے جانے کا وقت شاید گزر چکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور عوام کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی کریں اور قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ سول نافرمانی کا راستہ ماضی میں ناکام رہا ہے، اور موجودہ حالات میں بھی اس کے مثبت نتائج کی توقع کرنا مشکل ہے۔ سیاسی استحکام اور عوامی بھلائی کے لیے ذمہ دارانہ رویے کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسے اقدامات جو انتشار اور عدم استحکام کو فروغ دیں۔