اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی رکن جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ لیا؟ کیا سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ کا حصہ تھی؟ آزاد ارکان اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو پارلیمنٹ میں موجود ہو، جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہو سکتے ہیں؟ سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریکِ انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے فیصلہ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت
سپریم کورٹ آف پاکستان کے11 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے فیصلہ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز پر سماعت کی ہے۔
آج سماعت کے آغاز پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ لیا؟ کیا سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ کا حصہ تھی؟ آزاد ارکان اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو پارلیمنٹ میں موجود ہو، جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہو سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں 12 جولائی 2024 کو پاکستان تحریکِ انصاف کے حق میں سنائے گئے فیصلہ سے متاثر ہونے والی خواتین سیاستدانوں کے وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ آزاد ارکان جیت کر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے تھے، سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن لڑا ہی نہیں۔
سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں تھی، سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بن سکتی تھی لیکن مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آزاد ارکان نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیلز کو 13 ججز نے متفقہ طور پر مسترد کیا، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 185 تھری میں آئی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن تھا۔
مخدوم علی خان نے استدلال کیا کہ نوٹیفیکیشن سے اگر کوئی متاثر ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس لینا چاہیے تھا، آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ معاملہ مخصوص نشستوں کا معاملہ تھا، مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذاتِ نامزدگی میں غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہِ اختیار نہیں تھا۔
مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہو گا، عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس غلطی کو درست کیا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھے کہ فیصلہ درست ہے، نظر ثانی درست ہیں، اگر ایسی صورتحال بنے تو کیا ہو گا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسی صورت میں نظرِثانی مسترد ہو جائے گی، آئین کے آرٹیکل 187 کو کوئی دائرہِ اختیار نہیں ہے، مکمل انصاف آئین کی ایک پرویژن ہے جس میں سپریم کورٹ کسی تنازع پر مکمل انصاف کرتا ہے، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے تیسرے فریق کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا جو کہ عدالت کے سامنے نہ ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ سپریم کورٹ ہے سول کورٹ نہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ کل کو یہ عدالت مالک مکان اور کرایہ دار کے تنازع پر 185 تھری کی اپیل سنے اور مکمل انصاف کر کے تیسرے فریق کو ریلیف دے دے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کرایہ دار اور مالک مکان کا تنازع ذاتی نوعیت کا ہے، یہاں عوام کے حقِ رائے دہی کا معاملہ تھا۔
مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اقلیتی فیصلہ میں لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل اختیار اہم معاملہ ہے احتیاط سے استعمال کیا جائے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار شفاف ٹرائل کو ختم کر سکتا ہے۔
جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں۔مخدوم علی خان
جسٹس شاہد بلال نے دریافت کیا کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی؟ کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جا سکتی ہیں؟
مخدوم علی خان کا مؤقف تھا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے اس وقت دیکھنا تھا، میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا یا نہ دینا اور مسئلہ ہے لیکن الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ میرے فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا ڈیکلیئر کر کے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا، کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا، کچھ کے سرٹیفکیٹ بھی نہیں تھے۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔
مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو پی ٹی آئی کا ڈیکلیئر کیا گیا اور 41 لوگوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 دن میں کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے متعلق لکھا کہ آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کیا جا سکتا، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی لکھا کہ ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اپنے اقلیتی فیصلہ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس عدالت میں درخواست دائر نہیں کی بلکہ دورانِ سماعت پی ٹی آئی نے فریق ثالث کے طور پر معاونت کی درخواست دی، نشستیں حاصل کرنے کی درخواست دائر نہیں کی۔
سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست نہیں جیتی تھی۔ جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست نہیں جیتی تھی۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ وہ نشست نہیں جیتے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں وجوہات لکھی گئی ہیں کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی تو کیسے انہیں نشستیں دی گئیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی تفصیلی فیصلہ میں لکھا گیا کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو دیتی ہے، اسی وجہ سے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے لکھا کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے فریق نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کے دوران پریزائیڈنگ آفیسرز نے آئین کے تحت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، ہمارے سامنے آئی اپیل انتخابات میں غلطیوں کا تسلسل تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ لوگوں کو حقِ رائے دہی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، کوئی ہمارے سامنے ہو یا نہیں لیکن پریزائیڈنگ آفیسرز کی غلطی کی سزا عوام کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ پریزائیڈنگ آفیسرز نے فارم 33 درست طریقہ سے نہیں بنائے، آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کا دائرہِ اختیار کیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس مسرت ہلالی
مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے دائرہِ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہِ اختیار میں نہیں سنا جو کہ 184 تھری کا ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھنے میں مسئلہ آ رہا ہے، سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریکِ انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟
انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی۔ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی بلکہ امیدوار لڑتے ہیں، انتخابی نشان عوام کی آگاہی کیلئے ہوتا ہے، انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جا سکتا، سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلہ میں مکمل انصاف کے ساتھ نظریہ آئینی وفاداری بھی استعمال کیا گیا، آئین سے وفاداری کے نظریہ کی بات جذباتی لگتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کے دریافت کرنے پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں نوٹیفکیشنز چیلنج نہیں کیے تھے۔
مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا۔ مخدوم علی خان
وکیل مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا، نظرِثانی درخواستیں منظور کی جائیں، نظرِثانی کیس میں عدالت اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس کا اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں؟
مخدوم علی کا کہنا تھا کہ بالکل آپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے۔
مخدوم علی نے کہا کہ زبان ایک ہوتی ہے مگر رائے تو بدل سکتے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل
وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اپنے تحریری دلائل جمع کرا چکا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے بھی تحریری دلائل جمع کرا دیئے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ کل تحریری دلائل جمع کرا دیں گے۔
اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تحریری جوابات جمع کرا کے یہ جواب الجواب کا حق ختم کر چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کا مؤقف تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو کمیشن جواب الجواب دے گا۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ جواب الجواب کا حق دینا ہے یا نہیں، کل سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔
سماعت کل تک ملتوی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 تک ملتوی کر دی۔