The following column has been published exclusively for The Thursday Times by political analyst Ammar Masood.
اگرچہ حکومت ہر ممکن طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے شواہد بڑے واضح طور پر سامنے آ رہے ہیں، ایک طوفان ہے جو اس خاموشی کے پیچھے چھپا ہے۔ ایسا لگتا ہے بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اس سب کو خفیہ رکھنے کی جان توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ جس بات کو ہمارے ہاں مخفی رکھنے کی کوشش کی جائے وہ سب پر عیاں ہوتی ہے، سب کو اس کا علم ہوتا ہے لیکن بس اس پر بات نہیں ہوتی۔
وزیراعظم کے ساتھ بڑوں کی میٹنگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کہنے کو بات قومی سلامتی کی ہو رہی ہوتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس میٹنگ میں حکومت کی سلامتی کے حوالے سے بات نہ ہوئی ہو۔ لان میں ہوئی یہ میٹنگز ویسے تو خوشگوار ماحول کا تاثر دے رہی تھیں مگر حالات خوش گوار ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
امریکہ بہادر نےنئی حکومت کے آنے پر ابھی تک ہم سے مبارک باد وصول نہیں کی، خارجہ کا دفتر جان توڑ کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح ایک دفعہ ہم جو بائیڈن ایڈمنسٹریشن کو مبارک باد دینے کی سعادت نصیب ہو جائےمگر ابھی تک اذن نہیں ہو رہا، شرف باریابی کی اجازت نہیں مل رہی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں اس نئی ا یڈمنسٹریشن کے ساتھ حکومت کے تعلقات کتنی قربت کے ہوں گے۔ امریکہ کی نئی جمہوریت پسند ایڈمنسٹریشن پاکستان میں لگائے گئے سیٹ اپ کو کس نظر سے دیکھے گی۔ تقریب ِحلف برادری میں بھی ابھی تک کسی حکومتی اہل کار کو دعوت نہیں دی گئی، سعودی عرب نے بھی ناراضگی کا اظہار کر دیا ہےاور اپنے پیسے اس شدت سے واپس مانگے کہ ہمیں چین سے قرض لے کر سعودی عرب کو وہ رقم لوٹانا پڑی، چین نے سی پیک سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ “گیم چینجر “منصوبہ میں بھی گیم چینج ہوتی نظر آ رہی ہے، ایران کے تیور بھی ہمارے حق میں نہیں اچھے، افغانستان جس کو ہم کبھی اپنا صوبہ بنانے کا خواب دیکھتے تھے اب ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ دنیا میں ہم تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے حلیف بدقسمتی سے ہمارے حریف بنتے جا رہے ہیں، دوست ، دشمنوں کے کیمپ میں جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کوئی قومی تشخص ، حمیت اور غیرت اب باقی نہیں رہی۔
دنیا میں ملکوں کو ان کی معیشت کی وجہ سے احترام سے دیکھا جاتا ہے ، ہم نے یہاں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وقت کرونا کے باوجود دنیا کے ممالک ترقی کر رہے ہیں۔ اگلے مالی سال کا انڈیا کا گروتھ ریٹ آٹھ اعشاریہ آٹھ، ویت نام کا چھ اعشاریہ سات ، سری لنکا کا پانچ اعشاریہ تین ، بنگلہ دیش کا چار اعشاریہ چار ، افغانستان کی شرح ترقی چار اعشاریہ چار اور پاکستان کی شرح ترقی ایک سے بھی کم ہو گی۔ یہ اعداد و شمار “نیب ” نے نہیں بلکہ آئی ایم ایف نے جاری کیے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا بھوت غریب کی قبر پر ناچ رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب بجلی ، گیس، پٹرول یا اشیائے ضروریہ کی قیمت میں اضافے کی خبر نہ آئے، روزگار بند ہورہے ہیں اور لوگ تیزی سے بے روزگار ہو رہے ہیں۔ کبھی ہم طیارے کی لیز نہیں دے سکتے، کبھی ہم بھوک نہیں مٹا سکتے ، کبھی اپنے بین الاقوامی وعدے ایفا نہیں کر پاتے،کبھی ہم اپنے اثاثے گروی رکھ رہے ہیں، کبھی اپنے ادارے بیچ رہے ہیں گویا ایک مسلسل ہزیمت ہے جس کا ہمیں سامنا ہے، ایک مسلسل اذیت ہے جس سے سارے پاکستانی گزر رہے ہیں۔
دوسری جانب بین الاقوامی طور پر پاکستان کے پاسپورٹ کی اہمیت اب کمترین سطح پر آگئی ہے۔ کرپشن کے انڈکس میں ہم اور تنزلی کی جانب چلے گئے ہیں۔ ہر بڑے کرپشن کے کیس میں کچھ ایسے نام سامنے آنے لگے ہیں جن پر نہ بات ہو سکتی ہے ،نہ کوئی ان کا نام لے سکتا ہے، نہ کوئی الزام دھر سکتا ہے، نہ کوئی جواب طلب کر سکتا ہے۔ ایسے میں یہ تاثر کتنا بودا اور بھونڈا لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ یہاں کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔
پی ڈی ایم اپنے عزائم پر قائم ہے۔ نواز شریف سے رابطے تو ہو رہے ہیں مگر میاں صاحب اپنے اصولی موقف پر کھڑے ہیں کہ جب تک یہ مصنوعی سیٹ اپ ہٹایا نہیں جائے گا نہ بات ہو سکتی ہے نہ کوئی ملاقات ہو سکتی ہے۔ مولانا اپنی ہٹ پر قائم ہیں، پیپلز پارٹی بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش کر رہی مگر اب بیچ کی راہ کا وقت نہیں بچا۔ جب جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں اس طرح آمنے سامنے کھڑی ہوں تو جمہوریت کو فضیلت دلانے کے لیے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے، اصولوں کی خاطر قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ نواز شریف بہت قربانیاں دے چکے ہیں اور مزید بھی قربانیوں کے لیے صف آراء نظر آتے ہیں، ووٹ کو عزت دینا اب ان کا نعرہ نہیں بلکہ ضد بن چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ضد کے پکے آدمی ہیں ، ان کے لیے باتیں اب اتنی دشوار بھی نہیں رہیں۔ اس حکومت کی کارکردگی ان کے بیانیے کے حق میں سب سے بڑا ثبوت ہے،کرپشن کے بڑے بڑے سیکنڈل جو اس حکومت میں منظر ِعام پر آئے ان کے بیانیے کے حق میں ثبوت ہیں، عوام کی حالتِ زار ان کے بیانیے کے حق میں ثبوت ہے۔
جس وزیر اعظم کی روزانہ کی مصروفیات صرف سرکاری ترجمانوں کو گالی گلوچ پر اکسانے تک محدود ہوں ، جس حکومت کے وزراء ہر وقت سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بتانے پر مصر ہوں ، جس حکومت کے وزراء خود کرپشن کر کے “کرپشن!”” کرپشن!”کے نعرے لگا رہے ہوں ، جس حکومت کے عہدےدار نفرت کی آبیاری پر مامور ہوں ، جس حکومت میں ترقی کا کوئی منصوبہ نہ لگ سکا ہو ، جس حکومت کی کل کارکردگی صرف ماضی کا ماتم کرنے تک محدود ہو ، جس حکومت میں لوگ افلاس اور بھوک سے مر رہے ہوں، جس حکومت میں لاقانونیت ہی اصل قانون ہو ،اس ملک کے حالات اچھے نہیں ہو سکتے۔ اس حکومت کے حالات اچھے نہیں ہو سکتے ، اس وزیر اعظم کے حالات اچھے نہیں ہو سکتے، اس حکومت کے لانے والوں کے حالات اچھے نہیں ہو سکتے۔
تواگر آپ کو کوئی شخص پورے طمطراق سے ٹی وی کی سکرین پر یہ کہتا ہوانظر آئے کہ “حالات اچھے ہیں “تو سمجھ لیجیے وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اور اس کے اپنے حالات اچھے نہیں ہیں۔
The views expressed above are the writer’s own and are not those of The Thursday Times.