spot_img

Columns

Columns

News

نو مئی کو جو کچھ ہوا اس پر میرے جیسا مفاہمتی بندہ بھی پی ٹی آئی کیلئے کچھ نہیں کر سکتا، اسحاق ڈار

تحریکِ انصاف فیک نیوز پھیلانے کی ایکسپرٹ ہے، لوگ مارے گئے ہیں تو کوائف دیں۔ جو کچھ 9 مئی کو ہوا، مجھ جیسا مفاہمتی بندہ بھی PTI کیلئے کچھ نہیں کر سکتا۔ آٹھ فروری کے مینڈیٹ کی بات کرنے والے پہلے 2018 الیکشن کا حساب دیں۔

السعودية تستضيف كأس العالم 2034: إنجاز رياضي تاريخي

المملكة العربية السعودية تحقق إنجازًا تاريخيًا في مجال كرة القدم، الرياضة الأكثر شعبية عالميًا، بفوزها بشرف استضافة كأس العالم 2034۔

سعودی عرب نے فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی حاصل کر لی

سعودی عرب کیلئے دنیا کے مقبول ترین کھیل ’’فٹبال‘‘ کے میدان میں تاریخی سنگِ میل، فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی جیت لی۔

Pakistani forces neutralise militants in Waziristan clash

Pakistani security forces neutralised seven militants in North Waziristan, highlighting their fight against terrorism, while a soldier’s sacrifice reinforces national resolve.

Pakistan unveils gemstone hub to boost exports

Pakistan is launching a Gem and Jewellery City to boost gemstone exports, attract foreign investment, and transform its mining sector into a global player.
Opinionاسلام آباد کو شناخت مل گئی
spot_img

اسلام آباد کو شناخت مل گئی

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

کہتے تو سب یہی ہیں کہ اسلام آباد کی کوئی شناخت نہیں، یہ افسروں کا قبرستان ہے، یہ بیوروکریٹس کی آماج گاہ ہے، یہ گریڈوں کا شہر ہے، یہ بابوؤں کی بستی ہے، یہاں کا کوئی کلچر نہیں ،کوئی تاریخ نہیں، کوئی تمدن نہیں، یہ فائلوں پر چپ چاپ دستخط کرنے والوں کا شہر ہے ، یہ ڈرائنگ رومز میں بحثیں کرنے والوں کا شہر ہے 

ایسے دور تاریک میں اسلام آباد کو بالآخر ایک شناخت مل ہی گئی ہے، یہ شہر اب اپنے جری صحافیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، ان پر بہیمانہ ستم کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، ان پر مبینہ حملوں کی وجہ سے معروف ہے۔

یہ کہنا درست نہیں ہے کہ دوسرے شہروں اور صوبوں میں صحافیوں نے اس دور تاریک میں حق کی شمع روشن نہیں کی؛ ہر صوبے میں ، ہر شہر میں کچھ سچ بولنے والے زندہ ہیں، پشاور میں حماد حسن جیسے لکھنے والے موجود ہیں، طارق آفاق جیسے نڈر صحافی وجود رکھتے ہیں، لاہور میں وجاہت مسعود ایسے دانشور ہیں۔ یہ وجاہت مسعود کو قطعی منصب نہیں کہ تین دہائیوں کی صحافت کے بعد انکے کالم سنسر کر دیئے جائیں انکے تجزیئے کو کسی سیاسی پروگرام میں جگہ نہ ملے۔ یہ میڈیا اب بونوں کا میڈیا ہے یہاں کسی بڑے قد کاٹھ کے دانشور کی قطعا گنجائش نہیں۔ اسکے بعد رضی دادا، عمران شفقت اور  احمد ولید بنا کسی خوف کے حق کی بات کرتے رہے ہیں  لیکن جو آفتیں  اسلام آباد کے صحافیوں پر اس دور میں پڑیں ان کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ 

حامد میر کے کیپٹل ٹاک کو دیکھ کر سیاست دان سیاست سیکھتے تھے، اہل مرتبہ اپنی حیثیت کو جانتے تھے، کل کیا ہونا ہے اس کا پتہ لگاتے تھے، ان کے کالم سے رہنمائی لیتے تھے۔اب حامد میر گولیوں سے اپنا بدن چھلنی کروا چکے ہیں، پھر بھی سچ کہنے کالپکا ہے، ایک دو منٹ کی تقریر کے جرم میں پروگرام بند ہوا  لیکن یہ بھی  غنیمت ہے ۔یہاں تو پروگرام بند کرنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا، سانسیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ 

ابصار عالم تازہ واردات کا شکار ہوئے ہیں۔ اس مجرمانہ حملے سے ابصار عالم کی سرشت میں فرق نہیں پڑا، گولی جسم کے آر پار ہو گئی مگر دلیری  نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، خوف زدہ کرنے والوں کو اب بھی ابصار کی پیمرا میں پریس کانفرنس خوف زدہ کرتی ہے۔ 

طلعت حسین جیسے صحافی بے روزگار ہو گئے ، جن کے بغیر اس ملک میں میڈیا کا تصور نہیں تھا، وہ اب بھی اپنے یو ٹیوب چینل سے سچ بات کرنے پر مصر ہیں، نہ کسی چینل کا ٹی وی پروگرام ہے نہ کسی اخبار کی ادارت ، مگر پھر بھی سچ بولنے کا چسکا ہے  جس کے لیے خوف کی ہر سرحد سے گزر جاتے ہیں۔

نصرت جاوید ہمارے اساتذہ  میں سے ہیں ان کی تائید کے بغیر کوئی چینل لانچ نہیں ہوتا تھا، بولتا پاکستان اب چپ کروا دیا گیا لیکن لفظ تو چھینے نہیں  جا سکتے،وہ  اب بھی لکھنے پر سچ بولنے پر قادر ہیں، ایک حملہ ہو چکا ہے  لیکن اپنے کالم میں اب بھی کسی خوف یا دباؤمیں نظر نہیں آتے۔ اب بھی خبر کی تلاش ان کا محبوب مشغلہ ہے 

مطیع اللہ جان اغوا ہوئے مگر باز نہیں آئے، سوال کرنے سے انھیں کوئی روک نہیں سکتا، سچ بولتے کوئی ٹوک نہیں سکتا۔ مطیع اللہ جان اغوا ہوئے، مار کھائی ، نوکری سے گئے، پروگرام بند ہوا، مگر اب بھی اپنی ہٹ پر قائم ہیں، اپنے یو ٹیوب چینل سے وہ راز افشا کرتے ہیں جو کہتے زبان ڈرتی ہے۔

احمد نورانی پر حملہ ہوا، لوہے کی راڈوں سے پیٹا گیا، جان مشکل سے بچی، الزامات لگائے گئے، کردارکشی کی گئی، نوکری گئی، شدید تکلیف دہ مالی حالات دیکھے، ملک چھوڑنا پڑا لیکن باز نہیں آئے۔ دیار غیر میں ایک پاپا جانز کی خبر دی اور ملک کی ستر برس کی سیاست ، تاریخ اور سوچ بدل دی۔

عمر چیمہ بہت پہلے ظلم کا شکار ہو چکے ہیں، مار پیٹ ہوئی، اغوا کیا گیا، زخمی حالت میں رات کے وقت موٹر وے پر چھوڑ دیا گیا، ہر وقت نوکری کا خدشہ درپیش ہے، ہر قدم پر جان کا خطرہ درپیش ہے مگر جھوٹ بولنے سے قاصر ہیں، اب بھی اپنی رپورٹنگ سے آگ لگا دیتے ہیں، ایوان ہلا دیتے ہیں۔ 

اسد طور تازہ واردات کا شکار ہیں، حملہ کیا گیا ، ارداہ یہ تھا کہ کہنیاں توڑ دی جائیں کہ ہاتھ لکھنے سے معذور ہو جائیں۔ اسد طور کے ساتھ  مار پیٹ کی گئی، رسیاں باندھ کر الٹالٹکا کر پیٹا گیا، منہ میں کپڑا ٹھونس دیا گیامگر اب بھی سچ بول رہے ہیں، کسی سے نہیں ڈر رہے۔

اعزاز سید کے پاس  بہت سے سوال ہیں، ان سوالات کی پاداش میں حملے کروا چکے ہیں، دھمکیاں سہہ چکے ہیں لیکن آج بھی بڑے بڑے فرعون ان کے سوال کی قوت سے کانپتے ہیں۔ 

مرتضی سولنگی جیسے تجربہ کار لوگ بے روزگار ہیں، بے روزگاری ان کی جمہوری سوچ کی راہ میں حائل نہیں ہے، وہ ڈٹ کر بات کرتے ہیں، کھل کر لکھتے ہیں۔ 

وحید مراد جیسے بے باک کورٹ رپورٹر کو کبھی کسی پروگرام میں تجزیہ کار کے طور پر نہیں دیکھا ، کورٹ رپورٹنگ پر جتنا عبور وحید مراد کو ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ 

اظہر سید اسی شہر کے کالمسٹ ہیں، کوئی اخبار ان کو چھاپنے کو تیار نہیں ، ویب سائٹس بھی ان کے قلم کی بے باکی سے خوف کھاتی ہیں ،ان کو دھمکیاں مل چکی ہیں لیکن فیس بک پر کالم لکھ کر سچ بولنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔ 

عبر شمسی نے سچ بولنے سے توبہ نہیں کی، پروگرام سے بے دخل کر دیا گیا، وہ چاہتیں تو درباری ٹولے میں شامل ہو سکتیں تھیں مگر انھوں نے سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا اور اب گھر بیٹھے اس کا نتیجہ بھی فخر سے بھگت رہی ہیں۔ 

ریاستی جبر و ستم کی ان داستانوں کے بعد اس شہر کو اب شناخت مل گئی ہے۔ اگر کراچی روشنیوں کا شہر ہے، لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے، پشاور پھولوں کا شہر ہے تو اسلام آباد کی شناخت اس کے دلیر صحافی ہیں، تاریخ کی کتابوں میں یہ شہر اسی نام سے جانا جائے گا،  اپنے صحافیوں کے بدن پر لگنے والے زخموں کے حوالے سے پہچانا جائے گا، ان کے بدن میں پیوست گولیوں کے حوالے سے اس کی شناخت ہو گی، ان کی بے روزگاری کے دنوں میں جدوجہد اس شہر کی پہچان ہو گی، جن کے الفاظ وقعت نہیں پاتے، جن پر حملے ہوتے ہیں ، جن کو دھمکیاں ملتی ہیں ،  جن کو نوکری نہیں ملتی، جن کی تضحیک کی جاتی ہے،  ان کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ہو گا۔ 

اسلام آباد کی قریبی علاقے واہ کینٹ کے شاعر مظہر خاموؔش کے اشعار پر بات ختم کرتا ہوں : 

رہے ہیں زیرِ ستم خواب دیکھنے والے

اسی لیے تو  ہیں کم خواب دیکھنے والے

ہوا کے رُخ پہ جو چلتے ہیں وہ چلے جائیں

رُکیں براہِ کرم خواب دیکھنے والے

جھکے ہوئے ہیں ترے در پہ  قاضی و ملا

مگر یہ اہلِ قلم خواب دیکھنے والے

جہاں ہے جرمِ بصارت  پہ قتل کا دستور

وہیں سے لیں گے جنم خواب دیکھنے والے

(مظہر حسین سید)

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: