spot_img

Columns

Columns

News

Pakistan stock market rallies as KSE 100 Index crosses 118,000 points amid investor optimism

Pakistan stock market sees strong growth as KSE 100 Index crosses 118,000 points amid renewed investor confidence. Market gains over 932 points, boosted by positive economic reforms and investor optimism.

پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، 100 انڈیکس نے 118,000 پوائنٹس کی سطح عبور کر لی

پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کا رجحان، سرمایہ کاروں کی بھرپور دلچسپی کے باعث کے ایس ای 100 انڈیکس نے 118,000 پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر لی۔ مجموعی طور پر انڈیکس میں 932 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دہشت گردوں کے سہولت کار افراد، اداروں یا گروہ سے کوئی رعایت نہیں ہوگی، اعلامیہ قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی

دہشتگردوں ملک دشمن قوتوں کے سہولتکار افراد، ادارے یا گروہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ دہشتگروں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے انکی لاجسٹک سپورٹ ختم کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ پوری قوم افواج اور دیگر قانون نافذ کرنیوالوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

PIA eyes UK comeback with direct flights set to restart post-Eid

TLDR: • PIA resumes UK flights after hiatus • EU flight...

پی آئی اے کی عیدالفطر کے فوری بعد برطانیہ کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی

پی آئی اے کی چار سال بعد برطانیہ کیلئے براہِ راست پروازوں کی بحالی، عیدالفطر کے فوری بعد لندن اور مانچسٹر کیلئے براہ راست پروازیں چلائی جائینگی ۔ اس سے قبل یورپی یونین کی پابندی کے خاتمے کے بعد جنوری میں پیرس کے لیے براہِ راست پروازیں بحال کی گئی تھیں۔
Commentaryسیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
spot_img

سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

ملک کا سیاسی نقشہ عجب جمود کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ لگتا ہے  سب سیاسی اور غیر سیاسی کھلاڑی اپنے،  اپنے بیانیئے کا شکار ہو چکے ہیں۔ کسی کو صورت حال  میں تبدیلی گوارا نہیں۔  بساط کے سب کھلاڑی اپنے کہے کی گرفت میں ہیں۔ کوئی اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر رہا۔  کسی کو اپنے بیانیئے   سے “یو ٹرن” مقصود نہیں۔  یہ سوچنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ  سیاسی جمود کیسے تخلیق ہوا اور اس سے نکلنے کی صورت کیا ہے؟ دنیا کی تاریخ ایسے مشکل مقامات پر کیا حل تجویز کرتی ہے ؟ اور ہماری اپنی تاریخ کس راستے کی طرف نشاندہی کرتی ہے؟ 

موجودہ حکومت “کرپشن کرپشن” کی رٹ میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ انکی اپنی صفوں میں چاہے کرپشن کی جتنی مرضی کہانیاں ہوں یہ مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے سے ، انہیں چور، ڈاکو ، لٹیرا کہنے سے باز نہیں آ سکتے۔اس لیئے کہ انہوں نے ووٹ ہی اس بات کے لیئے ہیں۔ انہوں نے قوم کو سمجھایا  کہ اگر حاکم اعلی کرپٹ نہ ہو تو ملک ترقی کرتا ہے، ادارے مضبوط ہوتے ہیں ، کرپشن کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اب بقول خان صاحب کے مصاحبین کے خان صاحب کرپٹ نہیں ہیں تو جانے کیوں ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کرپشن کی کہانیوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر ادارہ سرنگوں ہوتا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو حکومت تسلیم کرنے سے اس لیئے قاصر ہے انہیں “کرپشن کا چورن” ہی بیچنا ہے۔ جس وقت انہوں نے اس چورن کی فروخت بند کردی انکی اپنی” ہٹی” بند ہو جائے گی۔ اس لیے حالات چاہے کچھ بھی ہوں حکومت وقت جب تک قائم ہے انکی زبان پر کرپشن اور لوٹ مار کے احتساب کو نعرہ ہی رہے گا۔ عمران خان اگر چاہیں بھی تو اس نعرے سے نہیں نکل سکتے۔ الزامات  گھڑنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔  

 مسلم لیگ ن “ووٹ کو عزت” دینے کے حصار میں قید  ہے۔ پورے ملک کے لوگوں نے اس نعرے پر لبیک کہا۔ جماعت چاہے کوئی بھی ہو  جمہوری سوچ کے سیاسی کارکن اب ووٹ کو عزت دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب ہر اپوزیشن لیڈر کی ایک ایک حرکت کو اسی  نظر سے جانچا جا رہا ہے۔ کسی بیان میں اگر ووٹ کی عزت کے بیانیئے سے ذرا سا بھی انحراف ہوتا ہے تو عوام  اس  شخصیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ عوام میں جمہوری سوچ پیدا کرنا ایک کار دگر ہے مگر اس جمہوری سوچ کو قائم رکھنا اور خود اس میزان  پر پورا اترنا اس سے بھی مشکل کام ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا ووٹر ووٹ کو عزت دینے کے درپے ہے اور اس کے لیڈران اگر چاہیں بھی تو اس نظریئے سے انحراف نہیں کر سکتے۔ کسی ڈیل کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ 

پیپلز پارٹی،  سندھ حکومت کے گرداب میں ہے۔ انکی ساری سیاست ، ساری جدوجہد سندھ حکومت تک محدود ہے۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم چھوڑ سکتی ہے ، مخلص ساتھیوں کو دغا دے سکتی ہے ، اپنے نظریئے سے ہٹ سکتی ہے مگر سندھ کی حکومت نہیں چھوڑ سکتی۔اس لیئے کہ انہیں علم ہے کہ اب انکے ہاتھ میں اسکے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پنجاب میں وہ اپنی منزلت کھو چکے ہیں۔ یہ پارٹی اب قومی پارٹی نہیں رہی۔ اب انکی سر توڑ کوشش  ہے کہ اس کو صوبائی پارٹی تو رہنے دیا جائے ۔  خدشہ یہ ہے کہ اگر اس پارٹی سے صوبائی پارٹی کا ٹائیٹل بھی چھن گیا تو یہ سندھ کی دیہی علاقے کی پارٹی رہ جائے گی۔ اگلے الیکشن میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ اب جو ہاتھ میں ہے وہی بچت ہے،  وہی سیاست ہے۔ اس لیئے پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتی چاہے اس کے لیئے بھٹو کے نظریئے کی موت ہو جائے۔ چاہے اس کے لیئے میثاق جمہوریت کا قتل ہو جائے۔

مولانا فضل الرحمن اور دیگر چھوٹی  جماعتیں بڑی پارٹیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو قوت رکھنے کے باوجود کوئی قومی سطح کی تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔ انکی پوزیشن “تیل دیکھو اور تیل کی دھار” دیکھنے تک محدود ہے۔ انکی توقعات ملک کی بڑی پارٹیوں سے ہے۔ انہی کے بیانیئے پر انکی سیاست کا انحصار ہے۔ یہ سب منتظر ہے ایسی صورت حال کی جہاں انکی اپنی اساس بھی قائم رہے،  ملکی سیاست کے دھارے کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے اور جمہوریت کے نام پر بٹا بھی نہ لگے۔ 

اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کے ساتھ تعاون کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ انہیں ایک ٹوکری میں سب انڈے ڈالنے کی سزا مل رہی ہے۔ چاہے اب وہ ملکی صورت حال پر تاسف سے ہاتھ ملیں چاہے اس ابتری پر دکھ کا اظہار کریں اب وہ اس حکومت کی پشت پناہی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ  اس مقام سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ اب مثبت رپورٹنگ سے انحراف ممکن نہیں۔ سب کچھ کنٹرول کر کے بھی ملک کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے کا الزام اب ان کےسر ہے۔ “چند لوگ” اب اس حکومت کی طرف داری سے ہاتھ کھینچتے ہیں تو کئی ہاتھ انکے گریبان تک پہنچتے ہیں ۔ کئی سوال انکی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ اس لیئے” ادارے”  اس حکومت کے ساتھ تعاون کے گرداب میں پھنسے ہیں۔ اس سے مفر ان کے لیئے ممکن نہیں ہے۔ 

جب سب فریق اپنے،  اپنے بیانیئے کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہوں ۔ کوئی بھی جنبش کرنے پر راضی نہ ہو تو ایسے حالات میں صرف بہادری کی کوئی مثال ہی صورت حال کا نقشہ بدل سکتی ہے۔ سیاسی جمود کو سیاسی جد وجہد میں تبدیل کرنا بہت کٹھن کام ہے۔ اب واحد حل یہ ہے کوئی سیاسی فریق ایسی دلیری سے کام لے جو اس صورت حال کو پلٹ کر رکھ دے۔  ابھی  تک کی صورت حال میں جرات کا یہ سہرا نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن  کے سر سجتا ہے۔ اس لیئے کہ وہ جس نظریئے پر چل رہے ہیں اس کے لیئے شجاعت بھی درکار ہے اور سرمدی ولولہ بھی ۔ دہائِوں کے جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھانا سہل نہیں۔  لیکن دلیری کی یہ داستان صرف ان تین لوگوں  تک موقوف نہیں ۔ اس داستان شجاعت میں پاکستان کے صحافیوں کے زخم خوردہ بدن ،  جسٹس وقار سیٹھ کے دلیرانہ  فیصلے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی شجاعت، حاصل بزنجو کی ہمت، پرویز رشید کی جمہوری سوچ،  فرحت اللہ بابر کا استدلال ، رضا ربانی کے دلائل،  مشاہد اللہ خان مرحوم  کا  دلیرانہ جذبہ  اور سینیٹر لالا عثمان کاکڑ کے جنازے میں شریک لوگوں کی انکھوں سے گرتے اشک بھی شامل ہیں۔ 

یاد رکھیں ۔ خوف  اور جبر کے ماحول میں  شجیع لوگوں کی بہادری ہی قوموں کو گرادب سے نکالتی ہے۔ انہیں جمہوریت کی راہ پر ڈالتی ہے۔ سیاسی جمود کو  سیاسی جدوجہد میں ڈھالتی ہے۔ 

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: