spot_img

Columns

Columns

News

بھارت نے دوبارہ جارحیت کی تو ہم ایسا جواب دیں گے کہ جس کا کبھی سوچا بھی نہ ہو گا، وزیراعظم شہباز شریف

پاک فوج نے پاکستان کے دشمنوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے، رافیل کے تکبر میں مبتلا بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، بھارت نے دوبارہ جارحیت کی تو ہم ایسا جواب دیں گے کہ جس کا کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب دو کروڑ ڈالر کی قسط جاری کر دی

آئی ایم ایف نے پاکستان کو سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت ایک ارب دو کروڑ تیس لاکھ ڈالر کی دوسری قسط جاری کر دی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ رقم زرمبادلہ کے ذخائر کا حصہ بنے گی، جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے

ترکیہ برادر پاکستانی قوم کے ساتھ اچھے اور بُرے وقت میں کھڑا رہے گا، ترک صدر رجب طیب اردوغان

ترکیہ برادر پاکستانی قوم کے ساتھ اچھے اور بُرے وقت میں کھڑا رہے گا، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر خوشی ہے، پاکستانی بھائیوں کو ان کے صبر و تحمل اور دانشمندانہ مؤقف پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

مودی کا بھارت عالمی دہشتگرد ہے، ہمارے پاس بھارت کی سپانسرڈ دہشتگردی کے شواہد محفوظ ہیں، خواجہ آصف

مودی کا بھارت عالمی دہشتگرد ہے، ہمارے پاس بھارت کی سپانسرڈ دہشتگردی کے شواہد محفوظ ہیں۔ بھارت کی دہشتگردی کے ثبوت کینیڈا اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ کو ایک فریق یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ بھارت اب پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد امریکا متحرک اور بھارت جنگ بندی پر تیار ہوا، اسحاق ڈار

پاکستان کی جانب سے 10 مئی کو جوابی کارروائی کے بعد امریکا متحرک اور بھارت جنگ بندی پر تیار ہوا۔ بھارت نے پاکستان کے بارے میں غلظ اندازہ لگایا جس کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑی۔ پانی کو موڑا یا بند کیا گیا، سندھ طاس معاہدہ سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اسے کھلی جارحیت اور جنگی اقدام تصور کیا جائے گ
Opinionچیف جسٹس صاحب: صابر محمود ہاشمی کو جشن آزادی منانے کی اجازت...
spot_img

چیف جسٹس صاحب: صابر محمود ہاشمی کو جشن آزادی منانے کی اجازت دی جائے

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

  انیس سو چھیالیس کا زمانہ تھا۔ پاکستان بننے کے آثار بہت واضح ہو گئے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو یقین ہو چکا تھا کہ اب لے کے رہیں گے پاکستان اور بن کے رہے گا پاکستان۔ ہر دل پر ایک ہی امنگ تھی کہ قائداعظم کی حوصلہ مند قیادت میں جلد ہی مسلمانوں کے لیئے ایک نیا وطن بن کر رہے گا۔ جہاں انہیں سوچنے کی، آذادی اظہار کی ، اپنے مذہبی شعار کی ، اپنی زبان کی اور اپنے حقوق کی آزادی ہو گی۔ جہاں ایمان، اتحاد اور تنظیم ہو گی۔ جہاں انگریز کی غلامی نہیں ہو گی اور سب  ایک آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ ایک ایسا ملک ہو گا جہاں انکو کوئی غلام نہیں سمجھے گا۔ جہاں قائد کے فرمان کے مطابق سب کو برابر حقوق ملیں گے۔ جہاں اقلیتوں کے حقوق سلب نہیں ہو گے۔ اس زمانے میں نوجوانوں میں جذبہ شوق دیدنی تھا وہ بڑھ چڑھ کے تحریک پاکستان میں حصہ لے رہے تھَے۔ ہر جلسے میں جاتے۔ قائد کا ہر حکم بجا لاتے۔ ہر کام رضاکارانہ کرتے۔ 

رنگ علی ہاشمی کا تعلق  امرتسر سے تھا  وہ برٹش آرمی میں ملازم تھے۔ برٹش آرمی سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ انگریز راج سے نفرت کرتے تھے اور غلامی کی اس زندگی سے تنگ آچکے تھے۔ آذادی کی خواہش انکے دل میں ہر دم موجزن رہتی تھی۔ اس زمانے میں برٹش راج کے لوگ رنگ علی ہاشمی کو اینٹی سٹیٹ کہتے اور ان پر غداری کے فتوے لگاتے۔ لیکن وہ ہر خوف اور بہتان سے بالاتر ہو کر  قائد اعظم  کے حوصلے کے گرویدہ تھے۔ ان کے فرمودات سے عشق کرتے تھے۔ رنگ علی ہاشمی کثیر الاولاد تھے۔ انکے دس بچے تھے ، پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام  دلمیر حسین ہاشمی تھا۔ وہ ہر وقت اپنے بچوں کو پاکستان کی اہمیت ، آذادی کی ضرورت اور قائد کے فرموادات کی تلقین کرتے تھے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ  دلمیر حسین ہاشمی   نے  جب انیس سو چھالیس میں میٹرک کیا۔ تو وہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں ایک جواں سال کارکن کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔ قائد اعظم کی ایماء پر مسلم لیگ کے لیئے چندہ جمع کرنے کی مہم پر جٹ گئے۔ اس زمانے میں دمڑیوں کا رواج تھا۔ دلمیر حسین نے اپنی ساری جمع جتھا اکھٹی کی اور ایک ایک دمڑی جمع کر کے کل سولہ روپے مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کروائے۔ یہ سولہ روپے دلیمر حسین کا کل اثاثہ تھا۔  

چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا۔ تو رنگ علی ہاشمی اپنے دس بچوں اور اہلیہ کو لے کر پیدل ہی امرتسر سے پاکستان کی جانب چل پڑے۔ فسادات کا زمانہ تھا۔ فسادیوں کے جتھے خونی نیامیں تھامے مسلمانوں کے قافلوں کے منتظر تھے ۔ ایسے ہی ایک قافلے کا حصہ رنگ علی  اور انکے اہل خانہ بھی تھے۔ فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ نہتے مسافروں کے پاس اپنے تحفظ کے لیئے آہ بکا کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ دلمیر حیسن کے سامنے انکی دو بہنوں اور دو بھائیوں کو ذبح کر دیا گیا۔ بہنوں کی عمریں پانچ اور سات سال تھی۔ ایک ذبح ہونے والے بیٹے کی عمر چودہ سال اور دوسرے کی عمر سترہ سال تھی۔ دہشت اتنی تھی کہ اس خاندان کو اپنے پیاروں کی لاشیں تک دفنانے کا موقع نہیں ملا۔ اپنے پیاروں کی  کٹی پھٹی لاشیں  بے گور کفن چھوڑ قافلے نے اپنا سفر جاری رکھا۔   

یہ قافلہ جب پاکستان پہنچا تو مسافروں  کی تعداد نصف سے بھی کم رہ گئی تھی۔ اس سرزمین مقدس پر پہنچتے ہی قافلے والوں نے اس زمین کو چوما، سجدہ کیا اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اب وہ ایک آذاد ملک میں آ گئے ہیں جہاں کوئی ان پر غلامی کی تمہت نہیں لگائے گا۔   

رنگ ہاشمی تلاش معاش کے لیئے رحیم یار خان چلے گئے۔ جہاں بڑے بیٹے دلمیر حیسن نے وٹرنری ڈاکٹر  کی تعلیم حاصل کی۔ لاہور میں شادی کی۔ اللہ نے دلمیر حسین کو چھ بچے عطا کیئے جن میں سے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام صابر محمود ہاشمی ہے۔ دلمیر حیسن نے ساری عمر اپنی اولاد کو ہجرت کی اذیتیوں  کے قصے سنائے۔ غلامی کی زندگی کے عذاب بتائے، پاکستان سے محبت کا درس دیا ، قائد کی شخصیت کے سحر کے بارے میں بتایا انکی اصول پسندی کے قصے سنائے۔ اور بتایا کہ ہمیں آذادی کس مشکل سے ملی۔ دلمیر حیسن کے والد بھی پکے مسلم لیگی تھی۔ دلمیر حیسن بھی مسلم لیگ کا دم بھرتے تھے۔ انہیں قائد اعظم کی مسلم لیگ سے عشق تھا۔ بچوں کو بھی اسی عشق کا درس دیتے تھے۔ 

دلمیر حسین کے پاکستان اور انکے سب سے چھوٹے بیٹے صابر محمود کے پاکستان میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔  صابر کو سیاسی شعور اپنے پرکھوں سے ملا۔ جمہوری سوچ انکی سرشت میں ہے۔ انکی تربیت ہی اس شعور کے ساتھ ہوئی ہے۔ صابر بھی پکے مسلم لیگی ہیں۔ انہیں نواز شریف سے بہت عقیدت ہے۔ انہیں جمہوریت کی بات سمجھ آتی ہے اس لیئے کہ انکے بزرگوں نے اسی کی تعلیم دی ہے۔ وہ ووٹ کو عزت دینے کے اس لیئے  قائل ہیں کہ ان بزرگوں کا خون اس جدوجہد میں شامل ہے۔ وہ آئین کی بالا دستی کے قائل ہیں کہ انکے باپ دادا نے انہیں یہی درس دیا ہے۔ 

پچیس جنوری دو ہزار اکیس کو صابر محمود ہاشمی کو ایف آئی کا پہلا نوٹس ملا۔ ان پر غداری کی تہمت لگائی گئی تھی۔ انہیں اینٹی سٹیٹ قرار دیا گیا۔  ان کا جرم جمہوریت ، آذادی اظہار  اور قاضی فائز عیسی کے حق میں ٹوئٹ کرنا ثابت ہوا۔ اس دن کے بعد سے آج تک صابر محمود کبھی تھانوں میں پیش ہو رہے ہیں کبھی پیشیاں بھگت رہے ہیں ، کبھی غداری کے فتوے ان پر لگائے جا رہے ہیں اور  کبھی ان پر اینٹی سٹِٹ ہونے کا بہتان لگ رہا ہے۔

میری چیف جسٹس آف پاکستان سے صرف یہ استدعا ہے وہ صابر محمود کو یہ بتادیں کہ وہ اس وقت جشن آذادی منائیں یا پھر غداری کے فتووں پر پیشیاں بھگتیں، اپنے بزرگوں  کے خون ناحق کا ماتم کریں یا اینٹی سٹیٹ کے الزامات بھگتیں ، اپنے والد کی تربیت  پر عمل کریں یا اپنی سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو جائیں ۔ تحریک پاکستان کے شہیدوں کا نوحہ پڑھیں یا وطن دشمنی کے طعنے سہیں۔ پاکستان کی جھنڈیاں لگائیں یا پھر ایف آئی آرز کی کاپیاں کروائیں۔ اور اگر جناب  چیف جسٹس صاحب اس مملکت خداداد میں یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو۔

بہت اچھا ہو گا اگر ہم صابر محمود جیسے سیاسی کارکن کو یہ بتا دیں کہ انکے آباء ہجرت کر کے، اپنے پیاروں کی خون آلود لاشیں چھوڑ کر، ایک ایسے ملک میں آ بسے ہیں جہاں جمہوریت جرم ہے، جہاں آزادی اظہار غداری ہے، جہاں عدالتوں کا احترام ایک بہتان ہے اور جہاں آئین کی بالا دستی ایک طعنہ ہے۔ بہت اچھا ہو کہ ہم صابر محمود کو بتا دیں تمہارے بزرگوں کی قربانیاں ضائع گئیں، ان کا خون رائیگاں ہوا، انکا آزادی کا سپنا ٹوٹ گیا۔ صابر محمود تم اب بھی غلام ہو۔ تمہیں نہ بولنے کا حق ہے نہ سوچنے کا۔ تمہارے صرف آقا بدلے ہیں قسمت نہیں۔ 

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: