اس اہم ترین ملاقات کا میں سب سے غیر اہم ملاقاتی تھا۔
اس بڑے سے کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے سب سے پہلی یاد وزیراعظم پاکستان کے دفتر کی آئی۔ وزیراعظم کے دفتر کی ہی طرح اس کمرے کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ ایک حصے میں وزیراعظم کے میز کی ہی طرح صدرمحفل کا میز لگایا گیا ہے جس کے اردگرد ملاقاتیوں کے لیے کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ کمرے کے دوسرے حصے میں، وزیراعظم کے دفتر کی ہی مانند، مہمان وفود سے ملاقاتوں کے لیے ترتیب وار کرسیاں اور صوفے رکھے گئے ہیں۔ گو کہ پھیلاو میں یہ کمرہ وزیراعظم کے دفتر سے بڑا ضرور ہے مگر فرنیچر کے انتخاب میں مملکتی سے زیادہ عام دفتری رنگ جھلکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے یہ کمرہ اِن دنوں کیمپ آفس کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ یہیں سے نوازشریف اپنی جماعت کا سیکریٹریٹ چلا رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں رابطے ، تقاریر اور مختلف ملاقاتیں اسی دفتر سے کرتے ہیں۔ اُس روز بھی ہمارا دو رکنی وفد نوازشریف سے ملاقات کے لیے اِسی دفتر پہنچا تھا۔ اس وفد میں اہم ترین ملاقاتی تھے ایک جماندرو لاہوریے جے۔این۔کے صاحب۔ بزرگی کی حدوں میں داخل ہو چکے، بڑی بڑی خضاب زدرہ سیاہ مونچھوں والے لمبے تڑنگے جے۔این۔کے صاحب کسی زمانے میں باقاعدہ وزیراعظم نوازشریف کے ماتحت ہوا کرتے تھے۔ نوازشریف سے ان کےتعلقات اتنے اچھے تھے کہ جے۔این۔کے کی اپنی پیشہ ور برادری میں سے بھی بیشمار لوگ انھیں ناپسند کرنا شروع ہوگئے۔ جے۔این۔کے۔ صاحب کے ساتھ طویل مدت سے چلے آرہے ہمارے خاندانی تعلقات اور بیشمار سفارشوں کے بعد، آج کی ملاقات کے لیے وہ مجھے اپنےساتھ محض اس لیے لائے تھے ، کیونکہ کئی دہائیوں سے نوازشریف کا مداح ہونے کی وجہ سے میں اُن کی بین السطور کہی ان کہی باتوں کی پرتیں کھول لینے کا دعویدار تھا۔
ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ محض چند لمحوں کے بعد ہی سفید قمیض کے اوپر گہری نیلی جیکٹ، نیلی پتلون اور نیلے جاگرز پہنے طلائی رنگت کے قالین پر چلتے ہوئے نوازشریف اس کمرے میں داخل ہوگئے۔ اسحاق ڈار ان کے ہمرا ہ تھے۔ نیم گرمجوش مصحافوں کے درمیان نوازشریف اور اسحاق ڈار کی آنکھوں میں اگرچہ میرے لیے شناسائی ناپید تھی ، مگر ن لیگ سے میرے طویل تعلق بارے انھیں آگاہ لازمی کیا جاچکا تھا جس کا مظہر میری وہاں موجودگی پر اُن کی طرف سے معترض نا ہونا تھا۔ نوازشریف نے بڑے صوفے کے ساتھ والی کرسی سنبھالی، اسحاق ڈار نے اپنے لیے نوازشریف کی کرسی سے ملحقہ میز کے ساتھ لگی کرسی پر بیٹھنا پسند کیا، جے۔این۔کے نے اپنے لیے بڑے صوفے کا وہ کونہ منتخب کیا جو کہ نوازشریف کی کرسی کے بالکل پاس تھا جبکہ میں نوازشریف کے بالکل سامنے پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھا براہ راست اُنھی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ جیل یقیناََ نوازشریف پر مہربان نہیں رہی تھی۔ ابھی چند برس پہلے کی ہی بات ہے کہ وہ دسمبر کی ٹھٹھرتی شاموں میں بھی محض ایک پتلی سی جیکٹ پہنے لاکھوں کے مجمع کو اپنے تقاریر سے گرما رہے ہوتے تھے۔ آج مگر برقی انگیٹھیوں سے گرم ہوئے اس کمرے اندر بھی وہ جیکٹ پہنے بیٹھے تھے۔ اپنے ملبوسات اور جوتوں کے انتخاب کے معاملے میں ذوق اور نفاست کی علامت سمجھے جانے والے نوازشریف اب اپنی صحت کے مسائل کی وجہ سے اکثر جاگرز پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے کرونا ماسک کو ٹھوڑی پر جمائے، بائیں ہاتھ سے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو سہلاتے ہوئے نوازشریف نے جے۔این۔کے۔ سے ابتدائی علیک سلیک کے بعد مجھ سے ہماری گذشتہ ملاقات بارے استفسار کیا تو جواباََ مجھے پورا واقعہ دہرانا پڑا۔
ان دنوں نوازشریف اور مریم نواز ایون فیلڈ ریفرینس کی پیشیاں بھگت رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت عدالتی سماعت روزانہ کی بنیاد پر چل رہی تھی۔ احتساب عدالت میں حاضری کے لیے انھیں روزانہ ہی لاہور سے اسلام آباد آنا پڑتا تھا۔ عدالتی حاضری کے بعد وہ پنجاب ہاوس اسلام آباد پہنچتے جہاں ان کی جماعتی و اتحادی اراکین سے کھُلی ڈُلی ملاقاتیں ہوتیں۔ ایک طرف نوازشریف اور مریم نواز احتساب عدالت کی پیشیاں بھگت رہے تھے تو دوسری طرف اعلیٰ ترین عدالتوں نے مسلم لیگ ن کو تختہ مشق بنا رکھا تھا۔ہر فیصلہ ن لیگ کے خلاف ہورہا تھا، ن لیگ مقدمے میں فریق نا بھی ہوتی تو پھر بھی فیصلے ن لیگ کے خلاف ہی آ رہے تھے جبکہ اس رویے پر معترض ن لیگیوں کو شام سے پہلے توہین عدالت کا نوٹس مل جاتا۔لیکن نوازشریف کی آمد پر پنجاب ہاوس اسلام آباد کا پورا ہال اپنی تمام منزلوں سمیت “میں بھی نواز ہوں” کے نعروں سے گونج اٹھتا۔اس دن میں بھی پنجاب ہاوس میں موجود تھا اور ہمارے سامنے نعروں کی اسی گونج میں ایک وزیرباتدبیر بھنگڑہ ڈال رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھی وزیرموصوف نے نوازشریف کی تعریفوں کے پُل باندھتی ایک تقریر کے دوران ہی نوازشریف کو مشورہ دیا کہ وہ مقتدرہ سے اب صلح کر لیں کیونکہ ان کے پاس تو ٹینک ہیں جن کا مقابلہ ممکن نہیں۔ نوازشریف نے جواب میں صلح کروانے کی ذمہ داری اُسی وزیرباتدبیر پر ڈال دی۔ اس منطر کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے نوجوان وزیر کھڑے ہوئے، نوازشریف کو اصولوں پر ڈٹے رہنے اور بھرپور مقابلہ کرنے کے مشوروں سے لبریز تقریر فرمائی جسے نوازشریف کی جانب سے بھی پذیرائی ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیل کا مشورہ دینے والا وزیر آج کی حکومت میں بھی وزیر ہے جبکہ مقابلہ کرنے کا مشورہ دینے والا وزیر چند دنوں کے بعد ہی توہین عدالت کے کیس میں پیشیاں بھگت رہا تھا۔پورا واقعہ غور سے سننے کے بعد نوازشریف نے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنی کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائی اور کہنے لگے “ بس جی سیاست میں یہ سب اونچ نیچ تو چلتی ہی رہتی ہے”۔
نوازشریف کی میزبانی میں ملاقاتیں ایک لگی بندھی ترتیب کی حامل ہوتی ہیں۔ ابتدائی سلام دعا کے بعد ویڈیو اور تصاویر بنائی جاتی ہیں، پھر ہلکی پھلکی ضیافت کے ہمراہ بات چیت کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور ملاقات کا اختتام انتہائی پرتکلف کھانےکے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ملاقات مگر آغاز سے ہی اپنی روایتی ترتیب سے کوسوں دور دکھائی دے رہی تھی۔ ویڈیو اور تصاویر کا بنایا جانا اگر ناپید تھا تو ضیافت روایت سے کہیں زیادہ پرتکلف۔ اس بے ترتیبی کا مطلب بڑا واضح تھا ؛ نا تو یہ ملاقات اعلانیہ تھی اور نا ہی اس ملاقات کو مزید افراد کی شرکت اور کھانے کے وقت تک طول کھینچنا تھا۔ قریب ہی واقع کسی دوسرے کمرے سے فیصل آبادی لہجے میں جگتوں اور قہمقوں کی ہلکی ہلکی آوازیں مجھ تک پہنچیں تو ، اپنے اجزائے ترکیبی میں اس ملاقات سے ہی مشابہت رکھتی ، ایک اور ملاقات مجھے یاد آ گئی۔ ان دنوں العزیزیہ ریفرینس میں دی گئی سزا کاٹتے نوازشریف کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔ تاہم جماعتی اراکین کے ساتھ ان کی ملاقاتوں پر پابندی ابھی عائد نہیں ہوئی تھی۔ ہر ہفتے جیل کے قیدیوں سے ملاقات کے ایک دن مخصوص ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن ن لیگ کی جماعتی قیادت کوٹ لکھپت جیل پہنچی تو اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت وہاں پہلے سے ہی نوازشریف کے ہمراہ براجمان تھی۔ پیغام رسانی کے لیے شہرت رکھتی اس شخصیت کی وہاں موجودگی سب کے لیے ہی باعث حیرت تھی۔ سلام دعا کے بعد جب سب بیٹھ چکے تو پیغام رساں شخصیت پنجابی میں کہنے لگی “ میں میاں صاب نُوں کہئیا اے کہ ہُن صلح ہوجانی چاہی دی[ میں نے میاں صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ اب انھیں صلح کر لینی چاہئیے]”۔ نوازشریف نے اس جملے کا فوری جواب دینا مناسب سمجھا “ تے میں کہئیا اے کہ ساڈے خلاف سازش کرن آلے ٹی وی تے آ کے اپنی غلطی منن اور مافی منگن تے صلح ہوسکدی اے [ جبکہ میں نے جواب دیا ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں کرنے والے اگر قومی ٹی وی پر آ کر اپنی غلطی تسلیم کریں اور معافی مانگیں تو پھر صلح کے لیے بات ہوسکتی ہے]”۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملاقات کا آغاز بھی اسی مطالبے کے ذکر سے ہوا ۔ یہ ذکر مگر جے۔این۔کے کی طرف سے ہوا۔ اپنی ابتدائی گفتگو کے دوران ہی انھوں نے ، اپنے الفاظ پر زبردستی کی خوشدلی طاری کرتے ہوئے ، حالیہ دنوں میں معافی کے طلبگار ہوئے مختلف صحافیوں کے عمل کو نوازشریف کے پرانے مطالبے کے ساتھ جوڑتے ہوئے سرعام معافی والی شرط کے پورے ہونے کا تاثر دینا چاہا ۔لیکن جوابی ردعمل حیران کُن تھا۔ نوازشریف نے اپنا وزن دائیں طرف منتقل کیا، دایاں ہاتھ کھولا اور اسے بمع بازو نصف دائرے کی صورت گھماتے ہوئے بولے “ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں، ان لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ کونسا سب کچھ اپنی مرضی سے کررہے تھے”۔ تاہم مزید کچھ کہنے کی بجائے انھوں نے وہ بات وہیں ختم کر دی، جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ ، اگرچہ اُن کی لغت میں ابھی تک ان کا مطالبہ تو پورا نہیں ہوا مگر ،مستقبل کی حکمت عملی میں یہ مطالبہ اب کہیں کمتر اہمیت کا حامل ہے ۔ جے۔این۔کے شاید بات کی تہہ تک پہنچ گئے تھے ، اسی لیے انھوں نے ملکی معیشت کی زبوں حالی پر گفتگو شروع کردی۔ اس دفعہ ان کے مخاطب اسحاق ڈار تھے۔ نوازشریف یہ پوری گفنتگو انتہائی غور سے سنتے ہوئے کبھی اپنا ماسک ناک پر چڑھا لیتے تو کبھی سانس لینے کی نیت سے اسے ناک سے نیچے اتار دیتے۔معیشت بارے گفتگو طویل تر ہوتی ہوئی ایوان کے اندر سے تبدیلیاں لانے کی طرف چھلکنے لگی تو نوازشریف کا صبر جواب دے گیا۔ انھوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی بنائی ، شہادت کی انگلی پھیلائی، انگوٹھا شہادت کی انگلی کے ساتھ جوڑا اور زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے “ ان اسمبلیوں سے جوڑ توڑ کر کے حکومت بنانا تو کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہوگی۔ بہتر حل یہی ہوگا کہ فوری طور پر صاف شفاف انتخابات ہوجائیں، عوام جسے بھی منتخب کرے وہ اپنا کردار ادا کرے۔ کم از کم نئے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے پاس پانچ سالہ مینڈیٹ تو ہوگا۔ ان اسمبلیوں سے ڈیڑھ سال کے لیے حکومت بنا کر کون کسی دوسرے کا گند اپنے سر ڈالنا چاہے گا”۔ گو کہ نوازشریف کے بین السطور جواب میں بھی وضاحت اور قطعیت موجود تھی مگر جے۔این۔کے کے لیے یہ جواب شاید متوقع تھا۔ چنانچہ انھوں نے جواب میں دانہ پھینکا “ لیکن میاں صاحب۔۔۔ نئی حکومت بنانے کے فوری بعد انتخابات کا اختیار تو نئی حکومت کے پاس ہی ہوگا”۔ اب اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی انگلیاں سہلاتے ہوئے نوازشریف ایک لمحے کے لیے بھی ہچکچائے بغیر بولے “ آج کل کے حالات میں کسی کے لیے بھی دوسروں پر اعتبار کرنا ممکن نہہں رہا، اعتبار سے بہتر ہے کہ انتظار کر لیا جائے”۔ گو کہ اس کے بعد بات چیت ان وجوہات کی طرف چلی گئی جن کی وجہ سے نوازشریف کسی پر اعتبار کرنے سے عاری تھے مگر ایوان کے اندر سے تبدیلیوں بارے ان کا موقف بڑا واضح تھا۔ اس موضوع پر جواب الجواب کا اختتام بھی تب ہوا جب اپنا کرونا ماسک ہٹاتے ہوئے نوازشریف بولے “ ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات اور فیصلے واپس ہوں”۔ اس پوری گفت و شنید کا وہ اہم ترین پیغام تھا جسے سمجھنا میرے لیے بالکل بھی مشکل نا تھا ، لیکن مجھے رتی برابر بھی امید نا تھی کہ یہ بات جے۔این۔کے کے پلے بھی پڑی ہوگی۔ میں نے جے۔این۔کے کی طرف دیکھا تو ان کے بزرگ چہرے پر حیرت سے زیادہ جھلاہٹ تھی۔ بین السطور نوازشریف خود کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بتا رہے تھے۔ کوئی رستہ ملتا نا دیکھ کر جے۔این۔کے اب اپنے آخری موضوع کی طرف آ چکے تھے۔ چند اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد انھوں نے ایک صفحے کی تاریخ ، وجوہات اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالنا شروع کردی اور بالآخر بات کا رخ اس طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں مزید تنازعات سے بچننے میں ہی ملک و قوم کی بہتری ہے۔بظاہر جے۔این۔کے کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا کہ نوازشریف ، مستقبل میں جنرل مشرف کے خلاف ہوئی کاروائی کی تاریخ دہرانے جیسی ، کوئی خواہش پالنے سے اجتناب برتیں۔ جے۔این۔کے کی گفتگو جب ضرورت سے زیادہ طوالت کھینچنا شروع ہوگئی تو نوازشریف نے میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگے “ آپ لندن آج ہی پہنچے ہیں؟”۔
واضح طور پر وہ مذاکرات ناکام ہوچکے تھے۔ گو کہ نوازشریف نے نے عدم اعتماد کی تحریکوں میں دلچپسی ظاہر نہیں کی تھی مگر انھوں نے اس خیال کو یکسر مسترد نا کرتے ہوئے یہ بتا دیا کہ ان تحریکوں میں وہ محض حکومت مخالف ووٹ دینے کی حد تک ہی شامل ہوسکتے میں ۔ بذات خود وہ نا تو ایسی کوئی تحریک لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نا اس کے بعد قائم ہونے والے کسی بھی بندوبست کا حصہ بننے میں۔ اسی طرح وہ اپنے خلاف ہوئی کاروائیوں کے ذمہ داران سے کسی قسم کی صلح کے خواہشمند بھی دکھائی نہیں دیتے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ وہ کسی کو محفوظ رستہ دینے کی بجائے اس کے سابق یا غیراہم ہونے کا انتظار کرنے کو ترجیح دیں گے۔ گو کہ وہ اپنے اُپ کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار ، چاہے محض علامتی مدت کے لیے ہی سہی ، بتا رہے ہیں مگر انھوں نے اپنی تمام تر بات چیت میں کسی بھی موقع پر ایسا کوئی سوال سامنے نہیں رکھا جس کا جواب انھیں درکار ہو۔ اس قطعیت کا مطلب تھا کہ مستقبل میں مزید رابطوں کا انحصار بھی جے۔این۔کے اور ان کے دوستوں کی ضرورت اور خواہش پر تھا، نوازشریف ایسی کسی خواہش کا اظہار نہیں کررہے۔ ابتدا میں تسلسل سے چلنے والی باتوں کے درمیان خاموشی بڑھنا شروع ہوگئی تو میرے لیے سمجھنا مشکل نا تھا کہ یہ ملاقات اب کس بھی لمحے ختم ہونے والی ہے۔ چنانچہ میں نے اپنا گلاس کوکا کولا سے دوبارہ بھر لیا اور مزید ایک عدد سموسے کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا شروع کردیے۔ بالآخر جے۔این۔کے نے اجازت چاہی تو میزبانوں کو بھی کوئی اعتراض نا تھا۔ دونون فریقین نے کھڑے ہو کر الوداعی بات چیت شروع کرد ی تو میں نے ایک ہی گھونٹ میں نصف کے قریب کوکاکولا سے بھرا ہوا گلاس خالی کیا ، ٹشو پیپر سے منہ اور ہاتھ صاف کرنے کے بعد میاں صاحب کے ساتھ الوداعی مصافحے کے لیے بڑھ گیا۔
وہاں سے رخصت سے ہوتے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب نا جانے کون کون سے زاویے سے یہ تمام باتیں مجھے جے۔این۔کے۔ کو سمجھانا پڑیں گی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میرے لیے تو اس پوری مشق کا حاصل دو گلاس کوکا کولا، تین عدد سموسے اور نوازشریف سے ملاقات ہی تھا۔
پسِ تحرير: قارئين! مندجہ بالا تمام واقعات و بات چیت یکسر خیالی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
The contributor, Mudassar Iqbal, can be reached on their Twitter account, @danney7077.