اونٹنی شہر کے بالائی سمت سے نمودار ہوئی تو ہزاروں کا لشکر عقب میں تھا لیکن اس کے باوجود بھی تکبر کی بجائے عجز اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔
!لیکن ٹھہریے
پہلے موجودہ منظر نامے میں ابھرنے والے اس خوفناک تکبر پر تو نگاہ کر لیجئے۔ وہ ملک کے منتخب وزیراعظم اور اپنے طاقتور سیاسی حریف نواز شریف کو بغیر کسی ثبوت کے گلی کوچوں میں سر عام چور ڈاکو کہتا رہتا لیکن وقت نے کروٹ بدلا تو خود اپنے چھپائے گئے 53 اکاونٹس اور کروڑوں اربوں کے گھپلوں کے ساتھ دکھائی دیے۔
منتخب وزیراعظم کو غددار اور مودی کا یار بھی کہتا رہا لیکن پھر خود اسی مودی کے فون کال کا انتظار کرتے کرتے ایک تماشا تو بنا ہی گیا ساتھ ساتھ کشمیر سے بھی ھاتھ دھو بیٹھا اور غدداری کی واضح اور عملی تشریح بھی کر گیا۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر آٹھ روپے فی یونٹ والا بل جلاتا رہا لیکن اقتدار میں آکر اسی بجلی کا یونٹ 23 روپے سے بھی اوپر لے جا کر بیچنے اور بد دعائیں لینے لگا۔

گرین پاسپورٹ کو عزت دینے کا دعویدار تھا لیکن ملک کو اس نہج پر لےکر گیا کہ سعودی عرب جیسے ملک نے ملائیشیا کی طرف پرواز کرتے ہوئے خود اس کے اپنے جہاز کا رخ تک موڑ دیا۔ مختصر کابینہ رکھنے کے اعلانات کرتا رہا لیکن تاریخ کی وہ سب سے بڑی کابینہ بنائی کہ اپنے وزراء کو ملنے والے محکموں تک کا بھی پتہ نہ تھا۔ دو کی بجائے ایک پاکستان بنانے کے دعوے کرتا رہا لیکن پھر خود پرویز مشرف سے عاصم باجوہ اور علیمہ خان سے زلفی بخاری تک “دوسرے پاکستان” کی بدنام زمانہ تخلیق اور بچاو میں لگا رہا۔
پرائم منسٹر ہاوس اور گورنر ہاوسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنا سیاسی نعرہ بنایا لیکن وقت آیا تو ان ہاوسز کو بد دیانت اور کرپٹ اشرافیہ اور پراسرار لوگوں کی اماجگاہیں بنا کر چھوڑا۔ باہر سے لوٹا ہوا پیسہ لا کر ملک سنوارنے کے وعدے کرتا رہا لیکن پاپا جونز سے براڈ شیٹ اور ملک ریاض سے ابراج گروپ تک کا ” دوست اور محافظ ” بنتا رہا۔ خود کو بہترین ٹیم بنانے کا ماہر کہتا رہا لیکن اس ٹیم سے اسد عمر حفیظ شیخ اور شوکت ترین جیسے نابغے برآمد ہوتے اور معیشت کو تباہی و بربادی سے دوچار کرتے رھے۔

قوم کو خود داری اور خود مختاری کا سبق دیتا رہا لیکن پھر اسی قوم کو سٹیٹ بینک سمیت آئی ایم ایف کی کھرلی پر باندھ کر چلتا بنا۔ ایماندار ساتھیوں کے انتخاب کے دعوے کرتا رہا لیکن بزدار شاہ فرمان جہانگیر ترین خسرو بختیار فیصل واوڈا عامر کیانی امین گنڈاپور زلفی بخاری ظفر مرزا علی زیدی اور رزاق داوود جیسے “بہترین اور ایماندار ساتھیوں” کا انتخاب کرتا رہا۔
پینسٹھ روپے لیٹر پٹرول بیچنے والوں کو ڈکیت کہتا لیکن خود وہی پٹرول ڈیڑھ سو روپے کے قریب بیچنے لگا۔ پاکستان کو سیاحوں کی جنت بنانےکا نعرہ لگاتا رہتا لیکن ایک چھوٹے سے شہر مری کو سنبھالنے کی بجائے دو درجن لاشوں کو وہاں سے ان کے گھروں میں بھیجا۔
!مزید آگے بڑھتے ہیں
جو انتہائی قابل اعتراض لہجہ اور غیر مہذب زبان نواز شریف کی ذات اور خاندان کے بارے اپنا چکا تھا حتی کہ اس کی آخری سانسیں لیتی بیوی کو بھی نہیں چھوڑا اب وہی لہجہ اور زبان اسی عمران خان کے بارے گلی کوچوں میں پھیل چکا اور وہی الفاظ پوری قوم اس کے بارے میں استعمال کر رہی ہے۔ جس نواز شریف کو جیل میں ڈالنے اور اے سی اتروانے کا اعلان خدائی لہجے میں کر رہا تھا وہی نواز شریف دن بدن اس کے لئے ایک ڈراونا خواب بنتا جا رہا ہے۔
جس آصف زرداری کو طعنے دیتا تھا اسی آصف زرداری کی پارٹی (تحفظات کے باوجود بھی) ایک صوبے میں عمران خان حکومت سے کہیں بہتر پرفارم کر رہی ھے۔ جس مولانا فضل الرحمن کو صبح و شام ڈیزل اور بکاو کہہ کر تمسخر اڑایا کرتا تھا اسی فضل الرحمن نے خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی بلدیاتی انتخابات میں اسے پچھاڑ کر رکھ دیا۔
جس شہباز شریف کے انتظامی مہارت کو خراج پیش کرنے کی بجائے بربادی اور جنگلہ بس کے طنزیہ جملے بولتا تھا اب اسی شہباز شریف کی نسبت سے اس کے اپنے مقرر کردہ وزیر اعلی عثمان بزدار کا تعارف کرانا پڑتا ہے۔ محمود خان اچکزئی کے لباس کی نقل اتارتا رہا لیکن پھر اپنے قمیض کی دو موریوں کے ڈرامے نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بزرگ اور عمر رسیدہ قائم علی شاہ کی یاداشت پر انہیں طنز اور تضحیک کا نشانہ بناتا رہا لیکن پھر خود کبھی حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر تاریخ سے نکالنے لگا تو کبھی جرمنی اور جاپان کے بارڈر ملانے لگا۔ جس پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا رہتا قدرت نے اسی پرویز الہی کا محتاج بنا دیا کیونکہ عمران خان کی حکومت اسی ق لیگ کے چند ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے۔
جس اسحاق ڈار کی معاشی خدمات اور کامیابیوں کے باوجود بھی داد دینے کی بجائے نہ صرف اسحاق ڈار بلکہ اس کے مرحوم والد تک کا مذاق اڑاتا اور جملے کستا رہتا۔ وہی اسحاق ڈار اس کے وزراء خزانہ اسد عمر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی “پرفارمنس ” کے سبب قوم کےلئے ایک معاشی مسیحا کا روپ دھار چکا ہے۔
