spot_img

Columns

Columns

News

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی گرفت کمزور: وزیرِاعظم میشل بارنیئر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب

فرانسیسی پارلیمنٹ میں وزیرِاعظم میشل بارنیئر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب۔ ایک غیرمعمولی اتحاد کے ذریعے میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت "نیشنل ریلی" نے بائیں بازو کے اتحاد کے ساتھ مل کر بارنیئر کی حکومت کو گرا دیا۔ صدر مینوئل میکرون سخت مشکلات کا شکار۔

Macron’s fragile hold as France ousts Barnier in confidence vote

France’s Parliament ousts Michel Barnier in a no-confidence vote, sparking fresh political turmoil as Marine Le Pen’s influence rises and Macron faces mounting instability.

UnitedHealthcare CEO fatally shot in targeted Manhattan shooting

UnitedHealthcare CEO Brian Thompson was fatally shot in a targeted Midtown Manhattan shooting. Police are investigating the gunman’s motive and escape route.

বাংলাদেশ ও পাকিস্তানের বাণিজ্য সম্পর্কের উন্নতি: সরাসরি শিপিং ও চিনি আমদানি পুনরায় চালু

বাংলাদেশ কয়েক দশক পর পাকিস্তান থেকে চিনি আমদানি পুনরায় শুরু করেছে, করাচি থেকে চিটাগং পর্যন্ত সরাসরি শিপিং রুট চালুর সাথে এটি ঘটে। প্রথম চালানে শিল্প কাঁচামাল ও খাদ্যপণ্য অন্তর্ভুক্ত রয়েছে, আর চিনি আগামী মাসে পৌঁছানোর কথা। এই উদ্যোগটি বাণিজ্য কার্যকারিতা বৃদ্ধি ও দুই দক্ষিণ এশীয় দেশের অর্থনৈতিক সম্পর্ককে আরও দৃঢ় করার আশা করছে।

Pakistan and Bangladesh strengthen trade ties with direct shipping

Bangladesh and Pakistan have inaugurated a landmark direct shipping route, marking a new chapter in their trade relations. The route's first shipment, which includes industrial materials and essential food supplies, signifies a major step toward streamlined logistics and strengthened economic collaboration between the two nations. Sugar shipments are expected to arrive at Chittagong Port next month, further reinforcing this growing partnership.
Opinionوزیر اعظم شہباز شریف سے کون کون ناخوش ہے؟
spot_img

وزیر اعظم شہباز شریف سے کون کون ناخوش ہے؟

شہباز سپیڈ  نے وفاق میں اپنی جو رفتار دکھانا شروع کر دی ہے وہ لوگوں کے لیئے حیرت کا سبب ہے ۔ لوگوں کو اس طرح کے وزیر اعظم کی عادت ہی نہیں رہی۔ کیونکہ ابھی تک شہاز شریف نے نہ کسی خطاب میں عمران خان کو گالیاں دی ہیں نہ ان پر غداری کا الزام لگایا ہے۔

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ۔ ایک عہد ستم بیت گیا۔ تاریخ کا ایک تاریک باب بند ہوا۔ نفرت ، بہتان ، الزام اور جبر کی حکومت تمام ہوئی۔ سیاہ رات گذر گئی ۔ سیاست نے ایک نئی کروٹ لی۔ ایک طویل جمہوری جدوجہد کامیاب ہوئی۔ شہباز شریف نے انتہائی مخدوش حالات میں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا ۔ حالات ایسے ہیں کہ نہ خزانے میں کوئی پائی بچی  نہ بیرون ملک پاکستان کی کوئی عزت رہی تھی ۔ ایک وسیع تر اتحاد نے نئے وزیر اعظم کو قیادت کا  منصب سونپا اور جمہوریت کی گاڑی ایک نئے سفر پر نکلی۔

شہباز شریف کی ابھی تک کی پرفارمنس پر بات کرنا اگرچہ نا مناسب ہے کہ چند دنوں میں کسی وزیر اعظم کے کام اور ارادوں کا اندازہ لگانا بہت ناانصافی ہے ۔ پھر بھی اب تک کی جو کارکردگی اس پر ایک طائرانہ نظر ضرور ڈالی جا سکتی ہے۔

 شہباز سپیڈ  نے وفاق میں اپنی جو رفتار دکھانا شروع کر دی ہے وہ لوگوں کے لیئے حیرت کا سبب ہے ۔ لوگوں کو اس طرح کے وزیر اعظم کی عادت ہی نہیں رہی۔ کیونکہ ابھی تک شہاز شریف نے نہ کسی خطاب میں عمران خان کو گالیاں دی ہیں نہ ان پر غداری کا الزام لگایا ہے۔ باوجود اسے کے گذشتہ دور تاریک میں ہونے والی کرپشن کے بے پناہ ثبوت سامنے آ رہے ہیں اسکے باوجود ابھی تک نہ چور ، ڈاکو کا نعرہ بلند کیا  نہ کفر کے فتوے لگائے  نہ بہتان و الزام کا بازار گرم کیا  نہ ذاتی حملے کیئے  

گذشتہ چار سال کے اذیت ناک تجربے کے بعد قوم کے بہت سے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم تو وہ ہوتا ہے جو نہ آئین کو مانے نہ قانون کی عملداری کرے نہ عدالتوں کے فیصلے کو تسلیم کرے نہ ایوان کو عزت دے۔ عمران خان نے بتایا کہ وزیر اعظم کہلانے کا مستحق وہ ہوتا ہے جو اپنے ہی عشق میں گرفتار رہے۔ جسے نہ ملک میں ہونے والی مہنگائی کی پرواہ ہو ، نہ احباب کی جانب سے ہونے والی کرپشن پر اس کو کوئی شکوہ ہو۔ جو ہر بات کا الزام دوسروں پر ڈالنے کا اہل ہو ، جو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرے ، جو ہر شخص ، جماعت ، قاعدے ، قانون اور اصول  کو اپنی ذات سے ہیچ سمجھے۔ عمران خان نے قوم کو یہی درس دیا ہے کہ سیاست انکی ذات کا نام ہے۔ باقی سب چور ، ڈاکو اور لٹیرے ہیں صرف خان ہی آئین ہے خان ہی قانون ہے اور خان ہی عدالت ہے۔

جس قوم کا یہ مزاج گذشتہ چار سالوں میں بنا دیا گیا ہو  اس قوم کو شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے تسلی نہیں ہو رہی۔ سوشل میڈیا والے پریشان ہیں کہ ہیں ابھی تک شہباز شریف کی نماز پڑھتے ہوئے ہر اینگل سے لی گئی تصاویر کا اجراء کیوں نہیں ہوا۔ ابھی تک نیب کے تعاون سے موجودہ اپوزیشن کا کوئی ایک بھی رہنما گرفتار کیوں نہیں ہوا۔ ابھی زرخرید اینکروں کے ساتھ ملاقاتوں کا آغاز کیوں نہیں ہوا۔

عوام بہت حیران و پریشان ہے کہ شہباز شریف نے ابھی تک اپنے ترجمانوں کا انتخاب تک نہیں کیا۔ اب نہ میڈیا پر کوئی فیاض چوہان جیسا بدزبان نظر آرہا ہے ، نہ فردوس عاشق کے خطابات عالیہ سننے کو مل رہے ہیں نہ فواد چوہدری جیسے کسی کی توہین کر رہےہیں نہ شہباز گل جیسے گالم گلوچ کر رہے ہیں۔

شہباز شریف آتے ہی جس طرح معیشت کی بہتری ، خارجہ تعلقات کی بحالی اور بہتر گورننس  میں تن تنہا  جٹ گئے ہیں یہ لوگوں کے لیئے اچھنبے کی بات ہے۔ ورنہ خان صاحب نے بتایا تھا کام کرنا ہے تو بذدار کی طرح کرو، معشیت کو سمجھنا ہے تو دور جدید کے ارسطو اسد عمر سے سمجھو ، خارجہ پالیسی کو سمجھنا ہے شاہ محمود قریشی کی چالبازیوں کے ذریعے سمجھو ۔

ہمارا چار سالہ تجربہ بتاتا ہے کہ وزیر اعظم کو عوامی فلاح سے کوئی غرض نہیں ہوتا، ٹماٹر پیاز کی قیمت کو کنٹرول کرنا اسکے منصب سے کہیں نیچے کی بات ہے۔ اس کا کام تو جھوٹ بولنا ہوتا ہے، مہنگائی سے مارے ہوئے عوام کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ ملک سب سے سستا ملک ہے، ایک سو پچاس روپے پٹرول بھی قوم پر احسان ہے۔

شہباز شریف پر صرف گورننس اور کارکردگی کا پریشر نہیں ۔ ان کو مخلوط حکومت کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ سب پارٹیوں کو خوش رکھنا ہے۔ سب کی بات ماننی ہے۔ پنجاب میں گورننس کا معیار اور تھا ۔ وہاں وفاقی کابینہ کو نظر انداز کر کے بیوروکریسی پر ڈنڈا چلا کر پراجیکٹ مکمل کیئے جا سکتے تھے۔ یہ وفاقی حکومت ہے اور مخلوط حکومت ہے۔ اس کے چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ ایک طرف خان صاحب ہیں جو اس خدشے کے پیش نظر جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکے کیسسز نہ کھل جائیں اور کرپشن کرپشن کے نعرے کے پیچھے چھپی کرپشن لوگوں کو نظر نہ آ جائے۔ دوسری جانب اتحادی جماعتیں ہیں جس میں سے ہر ایک اپنا سیاسی ایجنڈا ہے۔ ان سب کو ساتھ ملا کر چلنا دشوار ہے۔ لیکن ابھی تک سب سہولت سے ہو رہا ہے۔

ہم نے دیکھا ابھی تک شہباز شریف کسی جگہ اپنی شان  میں نعرہ بلند نہیں کرتے۔ وہ پہلے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں پھر نواز شریف کی سیاست اور قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہیں اور اسکے بعد پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے شکر گذار ہوتے ہیں۔ وہ محسن دارڑ اور علی وزیر کی پذیرائی کرتے ہیں۔ چین کے سی پیک کو جلد آگے بڑھانے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں۔ امریکہ سے تعلقات کو سرہاتے ہیں۔ کسی ملک کو الزام نہیں دیتے ، کسی ملک کو سازشی قرار نہیں دیتے

شہباز شریف پر بہت بھاری ذمی داری عائد ہوتی ہے۔ انکی کامیابی اس خان صاحب کے دور تاریک کی بعد جمہوریت کی کامیابی گردانی جائے گی اور انکی ناکامی سے لوگوں کا جمہوریت پر اعتبار ختم ہو جائے گا۔

اقتدار کے ابتدائی چند دنوں سے سب ہی خوش ہیں۔  نہ اسٹیبلشمنٹ کو ان سے سے کوئی شکایت ہوئی ہے نہ اتحادی جماعتیں جماعتوں نے کوئی شکوہ کیا ہے نہ نواز شریف کے نظریئے کو انہوں نے کوئی زک پہنچائی ہے نہ آئین کو پامال کیا نہ عدلیہ کے کسی حکمم کو پاوں تلے روندا  نہ عوام کی شکایات کو نظر انداز کیا ہے  ۔ سب ہی خوش ہیں  سوائے  ان بیوروکریٹس کے جن کا آدھی آدھی  رات کو شہباز شریف جگا کر کہتے ہیں چلو بھئی کام پر چلیں ۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: