Columns

News

اصل ایبسیلیوٹلی ناٹ نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے کیا، مریم نواز

قیادت کا فرق دیکھنا ہے تو 28 مئی 1998 کو دیکھو اور پھر 9 مئی 2023 کو دیکھو، فرق سمجھ آ جائے گا۔

تحریکِ انصاف کی فائرنگ اور ریپ کی خطرناک سازش بے نقاب، رانا ثناء اللّٰہ

تحریکِ انصاف نے آج رات کیلئے انتہائی گھٹیا ڈرامہ رچانے کی پلاننگ کی تھی تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے مگر ایجنسیوں کی بروقت کارروائی سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔

عمران خان 9 مئی کے حملوں کا سرغنہ ہے، اس کا کھیل اب ختم ہو چکا، مریم نواز شریف

9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کی منصوبہ بندی زمان پارک میں ہوئی اور اس سب کے پیچھے ملک دشمن قوتوں کا ایجنٹ اور توشہ خانہ چور عمران خان تھا۔ پاکستان کے بدترین دشمن بھی پاکستان پر ایسے حملے نہیں کر سکے جو عمران خان نے 9 مئی کو کروائے، جو پاکستان کے بدترین دشمن نہ کر سکے وہ عمران خان نے کر دکھایا۔

عمران خان کی میڈیکل رپورٹ جاری: گولی کا زخم موجود نہیں، شراب اور کوکین کے استعمال کا انکشاف

عمران خان کا یورین ٹیسٹ بھی لیا گیا تھا جس کی رپورٹ کے مطابق شراب اور کوکین کے وافر مقدار میں استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں جبکہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق عمران خان کی ذہنی حالت بھی نارمل انسان جیسی نہیں اور اسی لیے ان کی حرکات و سکنات میڈیکلی طور پر ایک فٹ انسان جیسی نہیں ہیں۔

چین پاکستان کو 2.4 بلین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کرنے جا رہا ہے، رپورٹ

چین نے جون میں قرضوں کی دو اہم ادائیگیوں کو پورا کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے جس کی کل مالیت 2.3 بلین ڈالر ہے، توقع ہے کہ 1.3 بلین ڈالر کے تجارتی قرضوں کی ری فنانسنگ اور چین کی جانب سے 1 بلین ڈالر کے قرض سے پاکستان کو فوری طور پر ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملے گی۔
Opinionوزیر اعظم شہباز شریف سے کون کون ناخوش ہے؟

وزیر اعظم شہباز شریف سے کون کون ناخوش ہے؟

شہباز سپیڈ  نے وفاق میں اپنی جو رفتار دکھانا شروع کر دی ہے وہ لوگوں کے لیئے حیرت کا سبب ہے ۔ لوگوں کو اس طرح کے وزیر اعظم کی عادت ہی نہیں رہی۔ کیونکہ ابھی تک شہاز شریف نے نہ کسی خطاب میں عمران خان کو گالیاں دی ہیں نہ ان پر غداری کا الزام لگایا ہے۔

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ۔ ایک عہد ستم بیت گیا۔ تاریخ کا ایک تاریک باب بند ہوا۔ نفرت ، بہتان ، الزام اور جبر کی حکومت تمام ہوئی۔ سیاہ رات گذر گئی ۔ سیاست نے ایک نئی کروٹ لی۔ ایک طویل جمہوری جدوجہد کامیاب ہوئی۔ شہباز شریف نے انتہائی مخدوش حالات میں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا ۔ حالات ایسے ہیں کہ نہ خزانے میں کوئی پائی بچی  نہ بیرون ملک پاکستان کی کوئی عزت رہی تھی ۔ ایک وسیع تر اتحاد نے نئے وزیر اعظم کو قیادت کا  منصب سونپا اور جمہوریت کی گاڑی ایک نئے سفر پر نکلی۔

شہباز شریف کی ابھی تک کی پرفارمنس پر بات کرنا اگرچہ نا مناسب ہے کہ چند دنوں میں کسی وزیر اعظم کے کام اور ارادوں کا اندازہ لگانا بہت ناانصافی ہے ۔ پھر بھی اب تک کی جو کارکردگی اس پر ایک طائرانہ نظر ضرور ڈالی جا سکتی ہے۔

 شہباز سپیڈ  نے وفاق میں اپنی جو رفتار دکھانا شروع کر دی ہے وہ لوگوں کے لیئے حیرت کا سبب ہے ۔ لوگوں کو اس طرح کے وزیر اعظم کی عادت ہی نہیں رہی۔ کیونکہ ابھی تک شہاز شریف نے نہ کسی خطاب میں عمران خان کو گالیاں دی ہیں نہ ان پر غداری کا الزام لگایا ہے۔ باوجود اسے کے گذشتہ دور تاریک میں ہونے والی کرپشن کے بے پناہ ثبوت سامنے آ رہے ہیں اسکے باوجود ابھی تک نہ چور ، ڈاکو کا نعرہ بلند کیا  نہ کفر کے فتوے لگائے  نہ بہتان و الزام کا بازار گرم کیا  نہ ذاتی حملے کیئے  

گذشتہ چار سال کے اذیت ناک تجربے کے بعد قوم کے بہت سے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم تو وہ ہوتا ہے جو نہ آئین کو مانے نہ قانون کی عملداری کرے نہ عدالتوں کے فیصلے کو تسلیم کرے نہ ایوان کو عزت دے۔ عمران خان نے بتایا کہ وزیر اعظم کہلانے کا مستحق وہ ہوتا ہے جو اپنے ہی عشق میں گرفتار رہے۔ جسے نہ ملک میں ہونے والی مہنگائی کی پرواہ ہو ، نہ احباب کی جانب سے ہونے والی کرپشن پر اس کو کوئی شکوہ ہو۔ جو ہر بات کا الزام دوسروں پر ڈالنے کا اہل ہو ، جو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرے ، جو ہر شخص ، جماعت ، قاعدے ، قانون اور اصول  کو اپنی ذات سے ہیچ سمجھے۔ عمران خان نے قوم کو یہی درس دیا ہے کہ سیاست انکی ذات کا نام ہے۔ باقی سب چور ، ڈاکو اور لٹیرے ہیں صرف خان ہی آئین ہے خان ہی قانون ہے اور خان ہی عدالت ہے۔

جس قوم کا یہ مزاج گذشتہ چار سالوں میں بنا دیا گیا ہو  اس قوم کو شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے تسلی نہیں ہو رہی۔ سوشل میڈیا والے پریشان ہیں کہ ہیں ابھی تک شہباز شریف کی نماز پڑھتے ہوئے ہر اینگل سے لی گئی تصاویر کا اجراء کیوں نہیں ہوا۔ ابھی تک نیب کے تعاون سے موجودہ اپوزیشن کا کوئی ایک بھی رہنما گرفتار کیوں نہیں ہوا۔ ابھی زرخرید اینکروں کے ساتھ ملاقاتوں کا آغاز کیوں نہیں ہوا۔

عوام بہت حیران و پریشان ہے کہ شہباز شریف نے ابھی تک اپنے ترجمانوں کا انتخاب تک نہیں کیا۔ اب نہ میڈیا پر کوئی فیاض چوہان جیسا بدزبان نظر آرہا ہے ، نہ فردوس عاشق کے خطابات عالیہ سننے کو مل رہے ہیں نہ فواد چوہدری جیسے کسی کی توہین کر رہےہیں نہ شہباز گل جیسے گالم گلوچ کر رہے ہیں۔

شہباز شریف آتے ہی جس طرح معیشت کی بہتری ، خارجہ تعلقات کی بحالی اور بہتر گورننس  میں تن تنہا  جٹ گئے ہیں یہ لوگوں کے لیئے اچھنبے کی بات ہے۔ ورنہ خان صاحب نے بتایا تھا کام کرنا ہے تو بذدار کی طرح کرو، معشیت کو سمجھنا ہے تو دور جدید کے ارسطو اسد عمر سے سمجھو ، خارجہ پالیسی کو سمجھنا ہے شاہ محمود قریشی کی چالبازیوں کے ذریعے سمجھو ۔

ہمارا چار سالہ تجربہ بتاتا ہے کہ وزیر اعظم کو عوامی فلاح سے کوئی غرض نہیں ہوتا، ٹماٹر پیاز کی قیمت کو کنٹرول کرنا اسکے منصب سے کہیں نیچے کی بات ہے۔ اس کا کام تو جھوٹ بولنا ہوتا ہے، مہنگائی سے مارے ہوئے عوام کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ ملک سب سے سستا ملک ہے، ایک سو پچاس روپے پٹرول بھی قوم پر احسان ہے۔

شہباز شریف پر صرف گورننس اور کارکردگی کا پریشر نہیں ۔ ان کو مخلوط حکومت کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ سب پارٹیوں کو خوش رکھنا ہے۔ سب کی بات ماننی ہے۔ پنجاب میں گورننس کا معیار اور تھا ۔ وہاں وفاقی کابینہ کو نظر انداز کر کے بیوروکریسی پر ڈنڈا چلا کر پراجیکٹ مکمل کیئے جا سکتے تھے۔ یہ وفاقی حکومت ہے اور مخلوط حکومت ہے۔ اس کے چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ ایک طرف خان صاحب ہیں جو اس خدشے کے پیش نظر جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکے کیسسز نہ کھل جائیں اور کرپشن کرپشن کے نعرے کے پیچھے چھپی کرپشن لوگوں کو نظر نہ آ جائے۔ دوسری جانب اتحادی جماعتیں ہیں جس میں سے ہر ایک اپنا سیاسی ایجنڈا ہے۔ ان سب کو ساتھ ملا کر چلنا دشوار ہے۔ لیکن ابھی تک سب سہولت سے ہو رہا ہے۔

ہم نے دیکھا ابھی تک شہباز شریف کسی جگہ اپنی شان  میں نعرہ بلند نہیں کرتے۔ وہ پہلے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں پھر نواز شریف کی سیاست اور قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہیں اور اسکے بعد پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے شکر گذار ہوتے ہیں۔ وہ محسن دارڑ اور علی وزیر کی پذیرائی کرتے ہیں۔ چین کے سی پیک کو جلد آگے بڑھانے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں۔ امریکہ سے تعلقات کو سرہاتے ہیں۔ کسی ملک کو الزام نہیں دیتے ، کسی ملک کو سازشی قرار نہیں دیتے

شہباز شریف پر بہت بھاری ذمی داری عائد ہوتی ہے۔ انکی کامیابی اس خان صاحب کے دور تاریک کی بعد جمہوریت کی کامیابی گردانی جائے گی اور انکی ناکامی سے لوگوں کا جمہوریت پر اعتبار ختم ہو جائے گا۔

اقتدار کے ابتدائی چند دنوں سے سب ہی خوش ہیں۔  نہ اسٹیبلشمنٹ کو ان سے سے کوئی شکایت ہوئی ہے نہ اتحادی جماعتیں جماعتوں نے کوئی شکوہ کیا ہے نہ نواز شریف کے نظریئے کو انہوں نے کوئی زک پہنچائی ہے نہ آئین کو پامال کیا نہ عدلیہ کے کسی حکمم کو پاوں تلے روندا  نہ عوام کی شکایات کو نظر انداز کیا ہے  ۔ سب ہی خوش ہیں  سوائے  ان بیوروکریٹس کے جن کا آدھی آدھی  رات کو شہباز شریف جگا کر کہتے ہیں چلو بھئی کام پر چلیں ۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

عدالت ہے یا عمران خان کا ڈیرہ؟

ان فیصلوں سے ریاست کی رٹ اور قانون کی گرفت کمزور ہوئی ہے جبکہ عدالتی وقار بھی مجروح ہوا ہے اور پولیس و دیگر اداروں کی بھی توہین کی گئی ہے۔

کیا عمران خان قانون سے بالاتر ہے؟

سوالات تو بہت سارے ہیں اور یقیناً جواب طلب ہیں مگر یہاں صرف ایک ہی سوال پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان ریاست کے تمام قوانین سے بالاتر ہیں؟

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

اصل ایبسیلیوٹلی ناٹ نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے کیا، مریم نواز

قیادت کا فرق دیکھنا ہے تو 28 مئی 1998 کو دیکھو اور پھر 9 مئی 2023 کو دیکھو، فرق سمجھ آ جائے گا۔

تحریکِ انصاف کی فائرنگ اور ریپ کی خطرناک سازش بے نقاب، رانا ثناء اللّٰہ

تحریکِ انصاف نے آج رات کیلئے انتہائی گھٹیا ڈرامہ رچانے کی پلاننگ کی تھی تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے مگر ایجنسیوں کی بروقت کارروائی سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔

عمران خان 9 مئی کے حملوں کا سرغنہ ہے، اس کا کھیل اب ختم ہو چکا، مریم نواز شریف

9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کی منصوبہ بندی زمان پارک میں ہوئی اور اس سب کے پیچھے ملک دشمن قوتوں کا ایجنٹ اور توشہ خانہ چور عمران خان تھا۔ پاکستان کے بدترین دشمن بھی پاکستان پر ایسے حملے نہیں کر سکے جو عمران خان نے 9 مئی کو کروائے، جو پاکستان کے بدترین دشمن نہ کر سکے وہ عمران خان نے کر دکھایا۔