پچھلے دو ہفتوں سے پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر جنرل ریٹائرڈ مشرفایمیلائیڈوسس کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ایمیلائیڈوسس کیا ہے اور یہ کیسے ہوتی ہے؟ یہ ایک نایاب بیماری ہے جس کا سبب جسم کی مختلف بافتوں اور اعضاء میں ابنارمل پروٹین کا جمع ہونا ہے اگر اس بیماری کا بروقت علاج نا کیا جائے تو نا صرف مریض کے اعضا ناکارہ ہوجاتے ہیں بلکہ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس بیماری کی شرح زیادہ ہے۔ عام طور پر اس بیماری سے 50-80 سال کے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور یہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اسکی مختلف اقسام ہیں جن میںایمیلائیڈوسس بہت عام ہے دیگر اقسام کی بہ نسبت یہ موروثی نہیں ہوتی لہذا مریض اپنے بچوں میں اسے منتقل نہیں کرتا۔
ایمیلائیڈوسس بون میرو کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے۔بون میرو وہ جگہ ہے جہاں پلازما سیل بنتے ہیں -پلازما سیل اینٹی باڈیز یا امیونوگلوبیولن بناتے ہیں جو جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہیں ۔ایک صحت مند جسم میں جب کوئی جراثیم داخل ہوتا ہے تو بون میروفوری طور پر پلازما سیل کے کلونز بناتا ہے جو اس وقت تک اینٹی باڈیز بنا کر خون میں شامل کرتے رہتے ہیں جب تک جراثیم پر قابو نا پالیا جائے۔ جیسے ہی جراثیم مرتاہے تویہ اینٹی باڈیز خود بخود ختم ہوجاتی ہیں اور پلازما سیل بھی مزید اینٹی باڈیز بنانا بند کردیتے ہیں۔
اس کے برعکسایمیلائیڈوسس کے مریض میں پلازما سیل کے کلونز ابنارمل اینٹی باڈیز بناتے ہیں جنکو ہلکی چین کہا جاتا ہے ۔ یہ ابنارمل اینٹی باڈیز ناصرف یہ کہ جراثیم کو مار نہیں سکتیں بلکہ مستقل خون میں شامل ہوتی رہتی ہیں اور جسم انکو ختم نہیں کر پاتا لہذا یہ ٹشوز کے اندر اور انکے ارد گرد لمبے لمبے دھاگوں کی شکل میں جمع ہوکر گچھے بنا لیتی ہیں یہ گچھےایمیلائیڈوسس بناتے ہیں جو کہ ٹشوز میں جمع ہوتا رہتا ہے جس سے ٹشوز اور اعضاء کا نا صرف کام متاثر ہوتا ہے بلکہ وہ ناکارہ بھی ہوجاتے ہیں۔
وزن کم ہونا، تھکاوٹ اور جسم کے مختلف حصوں میں سوجن ، جلد پر نیلے نشان بن جانا،زبان اور جگر کا بڑھ جانا، پیشاب میں پروٹین کا آنا،دل کا کام نا کرنا ، اعصاب کا متاثر ہونا اور اعضا کا ناکارہ ہوجانا اس بیماری کی عام علامات ہیں۔ایمیلائیڈوسس میں چونکہ مستقل ابنارمل اینٹی باڈئز بنتی رہتی ہیں لہذا اس کے علاج میں اہم نکتہ یہی ہے کہ کہ کسی طرح سے پلازما سیل کو اینٹی باڈیز بنانے سے روکا جائے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ایسا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوا البتہ ٹشوز اور آرگن میں ذخیرہ شدہایمیلائیڈوسس کو ختم کرنے کے لئے مریض کی کیمو تھراپی کی جاتی ہے۔
ایمیلائیڈوسس چونکہ دوباہ بن جاتا ہے لہذا مریض کو بار بار کیمو تھراپی کروانی پڑتی ہے اعضا کے ناکارہ ہونے کی صورت میں آرگن ٹرانسپلانٹ، سٹم سیل ٹرانسپلانٹ اور ڈائیلیسز بھی کی جاتی ہے۔
The contributor, Rukhsana Alam, has an MPhil and PhD in Microbiology.
She can be reached @rukhsanaalam.