کچھ عرصہ پہلے ایک لطیفہ سنا تھا۔ میں عموماً لطیفے تحریر نہیں کرتا مگر عمران خان کی فطرت بیان کرنے کیلئے اس لطیفہ کو ایک مثال کے طور پر لکھ رہا ہوں۔ یہ لطیفہ ایک ایسے شخص کے متعلق ہے جو ہر وقت “غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا، غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا” کہتا رہتا تھا۔
اہلِ خانہ نے اس شخص کو علاج کی غرض سے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیا جہاں تین چار برس تک اس کا علاج جاری رہا اور پھر ڈاکٹرز کو محسوس ہوا کہ وہ ٹھیک ہو چکا ہے اور غلیل بنا کر چڑیا مارنے کی بات کرنا بھی چھوڑ چکا ہے۔ ڈاکٹرز نے تسلی ہونے پر اس کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹرز نے اسکے اہلِ خانہ کو بلا کر انہیں بتایا کہ ان کا مریض اب مکمل طور پر ٹھیک ہو چکا ہے لہذا وہ اس کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ اہلِ خانہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایک ڈاکٹر نے اس پاگل شخص کو بلوایا اور اہلِ خانہ کی یقین دہانی کیلئے مریض سے گفتگو کرنے لگا۔
ڈاکٹر: تم ٹھیک ہو چکے ہو، کیا تم مطمئن ہو؟
مریض: جی ہاں
ڈاکٹر: اب تم گھر جانا چاہتے ہو؟
مریض: جی ہاں
ڈاکٹر: گھر جا کر کیا کرو گے؟
مریض: اچھے اچھے کھانے کھاؤں گا اور خوب سیر و تفریح کروں گا۔
ڈاکٹر؛ اور کیا کرو گے؟
مریض: اور میں اب کسی خوبصورت لڑکی سے شادی بھی کروں گا۔
ڈاکٹر: یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
مریض: جی ہاں، پھر میرے بچے بھی ہوں گے۔
ڈاکٹر: انشاءاللّٰه ضرور ہوں گے۔
مریض: پھر میں بچوں کے ساتھ کھیلا کروں گا اور انہیں نئے نئے کپڑے دلایا کروں گا۔
ڈاکٹر: ہاں کیوں نہیں، ایسا ہی ہو گا۔
مریض: بچوں کیلئے ان کی شلوار میں الاسٹک ڈالا کروں گا۔
ڈاکٹر: واہ کیا بات ہے۔
مریض: پھر میں بچوں کی شلواروں سے وہ الاسٹک نکال کر غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا، غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا، غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا، غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا۔
اور بس پھر علاج دوبارہ شروع ہوا۔
کچھ ایسا ہی حال عمران خان کا بھی ہے۔ وہ فطرتاً ایک قابلِ نفرت شخص ہے۔ شروع سے ہی انتہائی کثیف کردار، ناشائستہ حرکات اور کرپشن کا مریض رہا ہے۔ ماں کی میت چھوڑ کر کاؤنٹی کرکٹ کھیلتا رہا، پلے بوائے بننے کے ساتھ ساتھ ناجائز دولت سے اپنی جیبیں بھی بھرتا رہا۔ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں بیٹی کا باپ بنا تو اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا اور پھر کیلیفورنیا کی عدالت سے بدکردار ہونے کا سرٹیفیکیٹ لے کر بیٹی کو تسلیم کرنا پڑا۔ دولت کی ہوس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم چھوڑ کر کیری پیکر لیگ کھیلنے چلا گیا۔ سفارش پر قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا اور پھر اس مقام کو بھی برے کاموں کیلئے استعمال کرتا رہا۔
دولت کا ایسا پجاری کہ دولت کی خاطر یہودی لابی کو اپنا ضمیر فروخت کر دیا۔ چند برس کیلئے گولڈ سمتھ کی بیٹی کے ساتھ شادی، پاکستان میں پرتعیش رہائش، پراپرٹی، کاروبار، بینک بیلنس اور اقتدار کی آفر قبول کی اور یہودی لابی کے اشاروں پر ڈگڈگی والے بندر کی طرح ناچتا رہا۔ ڈاکٹر اسرار اور حکیم سعید جیسے لوگوں کے انکشافات کے مطابق اس شخص نے سیاست میں قدم رکھا اور پھر وہ وقت بھی آ گیا جب ججز جرنیلوں اور میڈیا کی ملی بھگت نے اسے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا ہی دیا۔
یہ شخص پاکستان کا بیڑا تو غرق کرتا ہی رہا اور آج تک اس مشن پر گامزن ہے مگر آسائشیں اور اقتدار اس کی فطرت نہ بدل سکے۔ یہاں بھی اس نے مرید بن کر 5 بچوں کی ماں “مرشد” سے تعلقات استوار کیے اور اس کو طلاق دلوا کر دورانِ عدت نکاح بھی رچا لیا۔ اسی نام نہاد مرشد کے کہنے پر پہلے ریحام خان سے شادی کی اور پھر طلاق دی۔ اقتدار میں آ کر بھی دولت کا پجاری رہا اور توشہ خانہ میں قیمتی تحائف دیکھ کر اپنے اندر کے ڈاکو والے جذبات پر قابو نہ پا سکا اور انہیں چوری کرنے یا کوڑیوں کے مول خرید کر بیچنے میں مصروف رہا۔
ماں کی میت چھوڑ کر کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے والے عمران خان نے اپنے قریبی دوست نعیم الحق کے جنازہ میں شرکت کرنا مناسب نہ سمجھا، سانحہ ساہیوال پر خاموش رہا، تحریکِ لبیک کے کارکنان پر تیزاب پاشی کروا کر انہیں قتل کرواتا رہا، ہزارہ کمیونٹی کے لاشوں سمیت دھرنا کو بلیک میلنگ کہتا رہا، پاکپتن کی ایک جادوگرنی اور فرح گوگی کے ذریعہ پنجاب میں لوٹ مار جاری رکھی، ملک ریاض کی لوٹ مار پر پردہ ڈال کر انگوٹھیوں کی فرمائشیں کرتا رہا، ملک ریاض سے سینکڑوں کنال اراضی لیتا رہا، رنگ روڈ کی زمین ہتھیا لی اور یہ مفت خورہ کرونا فنڈز تک ہڑپ کر گیا۔
کھانے پینے کی اشیاء یعنی آٹا، چینی تک میں کرپشن کرتا رہا، ادویات تک کو نہ چھوڑا اور وہاں بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹتا رہا۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال کو ملنے والے زکوٰۃ، صدقات، خیرات، عطیات کو ہڑپ کر کے اپنی اور بہنوں کی بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار سیٹ کرتا رہا۔ اس شخص کی قابلِ نفرت حرکات پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے بلکہ 10 جلدوں پر مشتمل کتاب بھی شاید کم پڑ جائے۔ مختصر یہ کہ فطرتاً چور، ڈاکو، إدمان الجنس اور فاشسٹ شخص نے پاکستان میں اقتدار اور آسائشیں ملنے پر اپنی فطرت کے مطابق ان حرکتوں کو جاری رکھا بلکہ اس کو آخری لیول تک بڑھاتا چلا گیا۔
یعنی “غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا” والے پاگل شخص کی طرح دو دہائیوں کے پلانز اور ڈھیروں آسائشوں نے بھی اس ذہنی طور پر بیمار عمران خان کی فطرت پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ سب کچھ ملنے کے بعد بھی غلیل بنا کر چڑیا ہی مارنے کی فکر اور کوشش میں رہا۔ یہ دماغی مریض اب لاعلاج ہو چکا ہے۔
اب تو ایسی آڈیوز اور ویڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں جن کے مطابق یہ دُرُشْت وزیراعظم ہاؤس میں اپنی جنسی ہوس کی تسکین میں ملوث رہا یعنی ایک پلے بوائے دہائیوں کے منصوبوں کے بعد اقتدار تک پہنچا اور یہاں بھی اپنی فطرت کے عین مطابق قابلِ نفرت کام جاری رکھے۔
ستر برس کی عمر میں اپنی بیٹی کی عمر کی خواتین کے متعلق بازاری زبان استعمال کرنے والے عمران خان کو سدھرنے یا کم از کم اپنی زبان کو لگام ڈالنے میں اور کتنا وقت لگے گا؟ کیا اس دماغی مریض کو ملک و قوم پر مسلط کرنے والے اپنی اس سوغات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے یا پھر ایک بار پھر اپنے گناہوں اور جرائم کا بوجھ سیاسی قیادت پر ڈال دیا جائے گا؟