اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض نے انکے گھر آکرکہا کہ اگر آپ ہماری مرضی کیمطابق فیصلے کردیں تواس وقت کے چیف جسٹس کو میڈیکل بنیادوں پرچھٹی پر بھیج دیا جائے گا اور آپکو وقت سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا جائیگا جس پر میں نے جواب دیا کہ یہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تو کیا اگر آپ مجھے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بھی بنا دیں تب بھی میں اپنے ضمیر کے خلاف فیصلہ نہیں کرونگا یہ بات جسٹس شوکت صدیقی نے معروف صحافی طلعت حسین سے ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئی کہی۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ جب جنرل فیض حمید کی مرضی کے فیصلے دینے کی بات نہیں مانی توصرف چالیس منٹ میں سارا عمل مکمل کرکے مجھے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔
سابق جسٹس نے کہا کہ ثابق چیف جسٹس ثاقب نثار ور جسٹس کھوسہ نہیں چاہتے تھے کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بن سکوں۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ میں نے اپنا کیس عدالت میں دائر کیا ہوا ہے لیکن ہر مرتبہ عدالت تاریخ دے دیتی ہے اور جب مقررہ تاریخ آتی ہے تواس دن میرا کیس ہی نہیں لگایا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ انکے خیال میں انکے کیس کی فائل اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان کے دفتر میں پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 29نومبر 2022 تک تو انکو سمجھ آتی ہے کہ کیس کیوں نہیں لگتا تھا کیونکہ تب تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید موجود تھے اور شاید انکے دباو کیوجہ سے وہ کیس نہیں لگنے دے رہے تھے لیکن اب اسکے بعد بھی کیس نہ لگنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ کے ساتھ دوستی کیوجہ سے انکے کیس کی شنوائئ نہیں کررہے کیونکہ وہ دونوں انکے خلاف تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس موقع پربتایا کہ جسطرح انکو اچانک نوکری سے برطرف کردیا گیا اسکے بعد انکو بڑے معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا انکو اپنے گھر بیچنا پڑا دوست احباب سے قرض لیکر گزارا کرنا پڑا اوریوں محسوس ہوا کہ انکو انکی فیملی سمیت چوک میں لاکرکھڑا کردیا گیا ہو۔
صحافی ارشد شریف کے قتل کا کیس لینے کے بارے میں جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ انکو یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ پورے پاکستان میں کوئی بھی انکا کیس لینے کو آگے نہیں آیا جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو انکی لاش کو گلی گلی قریہ قریہ لیکر بیچ رہے ہیں جن کے پاس بڑی لیگل ٹیم ہے انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا تو اس کے بعد انہو نے وہ بغیر فیس کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس موقع پر صحافی طلعت حسین نے کہا کہ جب جسٹس شوکت صدیقی کے برطرفی کے بعد انہوں نے انکا انٹرویو کیا تھا تو اسکو تب ٹی وی پر چلنے سے روک دیا گیا تھا تو انکی بیٹی تب رو پڑی تھیں اورانہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ انٹرویوچلا نہیں سکتے تو انٹرویو کرتے کیوں ہیں۔
جںرل فیض نے گھر آکر کہا ہماری مرضی کے فیصلے دو اور وقت سے پہلے چیف جسٹس بن جاو، جسٹس شوکت صدیقی
جنرل فیض نے انکے گھر آکرکہا کہ اگر آپ ہماری مرضی کیمطابق فیصلے کردیں تواس وقت کے چیف جسٹس کو میڈیکل بنیادوں پرچھٹی پر بھیج دیا جائے گا اور آپکو وقت سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا جائیگا۔