جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ نے آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینِ پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا، ہم آئینِ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں، یہ آئین پاکستان کے ہر شہری کی دستاویز ہے، 10 اپریل 1973 کو مشترکہ طور پر اسے اپنایا گیا، ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں، جب ناانصافی ہوتی ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کا کہنا تھا کہ یہ کتاب صرف پارلیمان نہیں بلکہ لوگوں کیلئے بھی اہم ہے، اس کتاب میں لوگوں کے حقوق ہیں، پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، ملک اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کیلئے بیج بوئے گئے، پاکستان توڑنے کا زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا جو پروان چڑھا اور دسمبر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، نمبر گیم سے جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہو سکتا، کوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کی سوچ دراصل مسلمانوں کیلئے استحصال سے پاک ملک تھی جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکیں، آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ پیغام بند کمرے میں نہیں بلکہ برصغیر کے کونے کونے تک پہنچایا گیا، دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست وجود میں آئی لیکن کام ادھورا رہ گیا، دستور ساز اسمبلی 7 سال تک کام کرتی رہی، آئین تیار ہونے کی نہج پر پہنچا تو ایک سرکاری ملازم نے آئین کو ٹھوکر مار دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈکٹیٹر ایوب خان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1956 کی دستور ساز اسمبلی میں کوئی انتخابات نہیں ہوئے اور وہ 2 سال میں دم توڑ گئی، ایک سرکاری ملازم نے فیصلہ کیا کہ میں عقلِ کل ہوں اور 1958 میں مارشل لاء نافذ ہو گیا، اس عقلِ کل نے 1962 کا آئین خود بنا لیا اور جمہوریت کو ختم کر دیا، سرکاری ملازم کے خیال میں عوام باشعور نہیں تھے۔
انہوں نے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 4 جولائی1977 کو ایک شخص نے جمہوریت اور آئین پر وار کیا اور 11 سال تک حکومت کی، پھر ایک جہاز حادثہ میں اس کا انتقال ہو گیا۔ یہاں جو بھی ڈکٹیٹر آتا ہے، کچھ عرصہ بعد خود کو دھوکہ دینے لگتا ہے کہ میں تو جمہوریت پسند ہوں۔ ڈکٹیٹر ریفرنڈم کرواتا ہے تو نتائج 98 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں حالانکہ پورے عوامی زور و شور سے ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی 60 فیصد سے زیادہ نہیں آتے۔
قاضی فائز عیسیٰ کا 12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کے متعلق کہنا تھا کہ ایک آدمی نے سوچا اس سے بہتر کوئی نہیں لہذا اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر اس نے دوسرا وار 3 نومبر 2007 میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے خود ہی اپنے آپ کو آئینی تحفظ دے دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین کی شق 184(3) کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں سوموٹو کا لفظ استعمال نہیں نہیں ہوا، یہ شق سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے کوئی کام کرنے کا اختیار دیتی ہے، یہ شق دراصل ان مظلوموں کیلئے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے، اس شق کو کسی ایک فرد کو فائدہ پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میری رائے کے مطابق اس شق کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے مگر میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، اگر آپ میری بات سے اختلاف رکھتے ہیں تو آئین کی کسی شق سے مجھے جواب دیں، ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب بھی 184(3) کا استعمال ہو تو سپریم کورٹ کے تمام ججز اس کو سنیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ نے ہمیں 7 بار سبق دیا مگر ہم نے تاریخ سے کبھی کچھ نہیں سیکھا، اگر ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھیں گے تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی۔