وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دورہ بھارت کے دوسرے روز شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت وزرائے خارجہ کے اجلاس میں خطاب کے دوران زور دیا کہ رکن ممالک کو سفارتی حربے کے طور پر دہشتگردی کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ رکن ممالک کو دہشتگردی سے نمٹنے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ہمارے لوگوں کا تحفظ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے لہذا ہمیں سفارتی پوائنٹ سکورنگ کیلئے دہشتگردی کو حربے کے طور پر استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین اور سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے برخلاف ریاست کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کے برعکس ہیں۔ وسیع تر تعاون، علاقائی انضمام اور لوگوں کیلئے معاشی مواقع کی فراہمی کیلئے ہماری مشترکہ کاوشیں امن کے قیام کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کر سکتی ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ کثیر الجہتی کیلئے پاکستان تمام بین الاقوامی فورمز پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کی حقیقی روح کے مطابق باہمی اعتماد، مساوات، ثقافتی تنوع کے احترام اور مشترکہ ترقی کے حصول پر یقین رکھتا ہے، پاکستان کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت واضح ہے۔
افغانستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف خطہ میں معاشی تعاون کیلئے اہم ہے بلکہ عالمی امن اور استحکام کیلئے بھی ضروری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے موسمیاتی تغیر جیسے عالمی مسئلہ کے متعلق پاکستان کی جانب سے تعاون اور مثبت کردار کو بھی واضح کیا۔
کشمیر کے متعلق بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کشمیر کے متعلق پاکستان کا مؤقف واضح ہے جو کہ ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے، بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کے اقدامات غیر قانونی اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھے جس سے خطہ کے حالات بدل گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام امن چاہتے ہیں جس کیلئے بات چیت کی ضرورت ہے اور ایسا تبھی ممکن ہے جب بھارت اس کیلئے سازگار ماحول پیدا کرے، بھارت کو 4 اگست 2019 کی صورتحال پر واپس آنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھیل کو سیاست اور خارجہ پالیسی سے الگ رکھنا چاہیے۔