جڑانوالہ—نامزد چیف جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ نے عیسیٰ نگر جڑانوالہ فیصل آباد میں 16 اگست کو پیش آئے اندوہناک واقعہ کے بعد آج عیسیٰ نگر کا دورہ کیا جہاں پر مسیحی برادری کے گرجاگھروں گھروں اور املاک کوبیدردی کیساتھ جلایا گیا اور لوٹ مارکی گئی۔
جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کے بیان کیمطابق گمراہوں کے ایک بے ہنگم ہجوم نے متعدد گرجاگھروں اور مسیحی برادری کے مکانات جلائے اور برباد کیے۔ یہ دیکھ کر مجھے بطور ایک مسلمان ایک پاکستانی اور ایک انسان کی حیثیت سے نہایت گہرا دلی صدمہ پہنچا ہے اور شدید دکھ ہوا ہے۔
نامزد چیف جسٹس نے قرآن کی سورہ الحج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے قرآن شریف پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔ قرآن شریف میں گرجاگھروں اور دیگر عبادت گاہوں کے تحفظ کا بلخصوص حکم دیا گیا ہے اور انکو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کیمطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کا پیغمبر نہ ماننے والا اور انکے ساتھ دلی عقیدت نہ رکھنے والا کوئی شخص خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم کو کرآن شریف میں کثرت سے ذکر ہے اورسورہ مریم انہی کے نام پر ہے۔
جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کے بیان کیمطابق جب مکہ میں جب مسلمانوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے تو قرآن کریم کی سورہ النحل اورسورہ العنکبوت میں مسلمانوں کو مکہ حجرت کیلئے کہا گیا اور نبی کریم نے اپنے صحابہ کی ہجرت کیلئے حبشہ کی سرزمین پسند کی اور فرمایا کہ وہاں کا مسیحی حکمران انصاف کرنیوالا اور مظلوموں کی مدد کرنیوالا ہے۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یروشلم فتح کرنے کے بعد گئے اور جب ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ چرچک آف ہولی سیپلکر کا معائنہ کررہے تھے۔ وہاں کے مسیحیوں نے کہا کہ آپ یہاں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن حضرت عمر نے اس خدشے کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنے سے انکار کردیا کہ کہیں بعد میں مسلمان اسے مسجد میں تبدیل نہ کرلیں۔ یہ تھا مسلمانوں اور مسیحیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی احترام کا مثالی رشتہ۔
قاضی فائیز عیسیٰ کے بیان کیمطابق گرجا گھروں پر حملہ کرنیوالوں نے قرآن شریف کے صریح احکام اور رسول اللہ ﷺ کی واضع ہدایات اور خلفائے راشدین کے روشن کردار کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ اسلامی شریعت کی اس خلاف ورزی کو کسی بھی الزام، بدلے یا انتقام سے جواز نہیں دیا جاسکتا۔
نامزد چیف جسٹس کیمطابق گرجاگھروں اور مسیحیوں کے گھروں پر حملہ کرنے والوں نے نہ صرف اسلامی شریعت بکہ ان لوگوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے پاکستان کے غیر مسلموں کو دی گئی ضمانتوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور آئین پاکستان اور قانون کو پامال کیا ہے۔ پاکستان کا پرچم بنانتے وہقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ پرچم کا ایک بڑا حصہ سفید رنگ کا ہو جو پاکستان کے غیر مسلمل شہریوں کی عکاسی اور انکے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 20 میں کسی مذہب کے ماننے، اس پر عمل کرنے اور اسکی تبلیغ کرنے کو بنیادی حقوق کا درجہ دیا گیا ہے اور اسی طرح مال اور جائیداد کی ملکیت بھی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔
مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعات 295 اور 295 اے کے تحت مذہبی مقامات اور علامات کو تقصان پہنچانا جرم ہے اور کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر دس برس تک قید اور جرمانے کی سزائیں ہیں۔
جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کے بیان کیمطابق ناسمجھی کی انتہا یہ ہیے کہ اسلام جس کے مفہوم میں امن ہے اور جو اپے پیروکاروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ لوگوں سے ملتے وقت انکے لیے سلامتی کی دعا کیا کریں، اس مذہب کے چند ماننے والوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات پامال کرتے ہوئے اتنی وحشت اور ظلم کا مظاہرہ کیا۔ کیا انہیں رسول اللہ کا یہ فرمان بھی یاد نہیں رہا کہ ان غیر مسلموں پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف وہ (رسول اللہ) خود روز قیامت اللہ کے سامنے مقدمہ پیش کرینگے۔
نبی کریم کے آخری خطبہ میں جو آپ نے 9ذی الحجہ کو عرفات کے مقام پر دیا، اس میں فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں، اور مومن وہ ے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں امن میں رہیں۔ مگر رسول اللہ کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا اور ایسے لوگوں کی نشاندہی قرآن مجید نے کی ہے جو ہر حد دے تجاوز کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ (نعوذ باللہ) خدائی کے مرتبے پر ہیں۔
قاضی فائیز عیسیٰ نے کا کہنا ہے کہ ہر مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، انکی جانوں، اموال، جائیداد، عزت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ان پر حملہ کرنیوالوں کو روکیں اور انکو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کریں۔