اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ایک ادارہ بار بار پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کر رہا ہے، عدلیہ اتنی قابل ہے کہ وہ نہ صرف عدالتیں چلاتی ہے بلکہ وہ تو ڈیم بھی بنا سکتی ہے، مہنگائی کا مقابلہ بھی کرتی ہے بلکہ وہ تو سموسے اور ٹماٹر کی قیمت بھی طے کر سکتی ہیں، ایک جماعت کو وہ بھی دے دیا گیا جو اس نے مانگا ہی نہیں تھا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کو پیرس 2024 اولمپکس میں شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کی، انہوں نے کہا کہ پوری قوم ارشد ندیم کی جیت کا سراہتی ہے اور فخر محسوس کرتی ہے، میں پوری قوم اور پارلیمنٹ کی طرف سے ارشد ندیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ارشد ندیم نے اپنی محنت سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور ورلڈ ریکارڈ قائم کر کے پاکستان کیلئے گولڈ میڈل جیت لیا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ارشد ندیم کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو موقع دیا جائے تو وہ فتحیاب ہو سکتے ہیں، ایتھلیٹس کی سپانسر شپ و دیگر سہولیات کے حوالہ سے ہماری متفقہ رائے ہونی چاہیے، ہمیں پاکستان بھر میں صلاحیت رکھنے والے بچوں کا ساتھ دینا چاہیے، لیاری کا ایک ایک بچہ فیفا کا ورلڈ کپ جیت سکتا ہے، ہمیں طے کرنا چاہیے کہ اگلے اولمپکس میں پاکستان کا ہر ایتھلیٹ گولڈ میڈل جیت کر آئے، تمام صوبوں میں انڈاؤمنٹ فنڈ قائم کیا جائے اور اس میں وفاق اور صوبے کچھ فنڈز رکھیں تاکہ ہم ان بچوں کو تلاش اور سپورٹ کر کے اگلے اولمپکس میں ہر صوبے سے ایک ارشد ندیم لا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک دو مسائل پر بات کرنا ضروری ہے، پاکستانی نوجوانوں میں صلاحیت ہے، لیبرز میں صلاحیت ہے، ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر اس ملک کی تاریخ کچھ ایسی ہے کہ یہ جو شہر اسلام آباد بنا یہ اس لیے بنا کہ ہمیں اسے دارالحکومت بنانا تھا اور یہاں بیٹھ کر پاکستانی عوام کے مسائل حل کرنا تھے، یہ بڑے بڑے ادارے اور عمارتیں، بیوروکریسی اور تمام سیاستدان موجود ہیں مگر جس کام کیلئے ہم یہاں آتے ہیں وہ پورا نہیں کرتے بلکہ ہم سازشیں شروع کر دیتے ہیں، آج کل پاکستانی سیاست میں جتنی تقسیم موجود ہے وہ تاریخ میں نہیں ملتی اور اسی وجہ سے عوام معاشی بحران سے گزر رہے ہیں اور ہم ان کی مدد نہیں کر پا رہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال مشکل ہوتی جا رہی ہے مگر ہم ایوان میں متفقہ رائے بھی قائم نہیں کر سکتے، ہم دن رات ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، ہم ایک دوسرے کو چور اور غدار کہہ رہے ہیں، ہمیں کوئی طریقہ نکالنا پڑے گا کہ لڑائیاں سیاست کے دائرے میں رہ کر لڑیں، پاکستان کے سیاسی کارکنان بنگلہ دیش کے حالات غور سے دیکھ رہے ہیں، احتجاج وہاں فوج میں شہید ہونے والوں کے کوٹے کے اوپر شروع ہوا، شیخ حسینہ واجد نے 2018 میں اس کوٹے کو خود ختم کیا اور پھر ان کی عدالت نے اسے بحال کیا تو حتجاج شروع ہو گیا جو رک نہ سکا اور سب نے دیکھا کہ کیسے شیخ حسینہ واجد کو اس وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا، اس کو دیکھ کر سب کو سوچنا چاہیے کہ ہمیں عوامی مسائل کو ترجیح دینی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کے جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ میں ہیں اور کچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں ہیں، اس وقت جو بحران ہے اس میں اداروں کے درمیان ایک فاصلہ نظر آ رہا ہے اور یہ فاصلہ اس لیے بن رہا ہے کہ ایک ادارہ پارلیمنٹ میں بار بار مداخلت کرتا ہے، عدلیہ کی تاریخ تو پورے ملک کے سامنے ہے، ارشد ندیم کی طرح ہماری عدلیہ نے بھی ورلڈ ریکارڈز توڑے ہیں، عدلیہ اتنی قابل ہے کہ وہ نہ صرف عدالت چلاتے ہیں بلکہ وہ تو ڈیم بھی بنا سکتے ہیں، عدالتیں اتنی کامیاب ہیں کہ وہ انصاف بھی دلواتی ہیں ڈیم بھی بناتی ہیں اور مہنگائی کا مقابلہ بھی کرتی ہے بلکہ وہ تو سموسے اور ٹماٹر کی قیمت بھی طے کر سکتی ہیں۔
سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ ہماری اتنی زبردست ہے کہ پوری دنیا میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، ہمارے پاس اتنے بڑے سانحات ہوئے ہیں جن میں بینظیر بھٹو اور ذوالفقار بھٹو کی شہادت شامل ہے، پاکستانیوں کی شکایتیں انصاف کی منتظر ہیں، ہمیں 3 دہائیوں تک انصاف کا انتظار کرنا پڑا اور بالآخر عدلیہ نے ذوالفقار بھٹو کو اس حد تک انصاف دیا کہ ہاں ان کو صحیح انصاف نہیں دیا گیا اور ساتھ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہم تاریخ کو درست کرنے کیلئے کوئی واضح عمل نہیں اٹھا سکتے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جب ڈیم بنانے کی بات آتی ہے، جب ٹماٹر اور سموسے کی قیمت طے کرنے کی بات آتی ہے تو آئین و قانون پتہ نہیں کہاں چلا جاتا ہے، جب انصاف کی بات آتی ہے تو آئین و قانون کو لاگو کرنا ہمارے ملک میں ایک رکاوٹ بن جاتا ہے، پاکستان میں چائے کی پیالی میں طوفان پیدا کر کے آئینی بحران بنایا جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار ایوان نہیں بلکہ یہ عدالت کی طرف سے پیدا کیا گیا بحران ہے، اپوزیشن سے کوئی پوچھے کہ ان کے بلے کا نشان کیا میں نے چھینا تھا؟ کیا میں نے کہا کہ آپ کے الیکشنز غلط ہیں؟ عدالت نے کہا انہوں نے الیکشنز میں دھاندلی کی ہے جس کی وجہ سے نہ ان کو نشان ملے گا نہ یہ جماعت رہیں گے، اس فیصلے نے ایک مری ہوئی سیاسی جماعت کو، جس کی الیکشن کمپیئن کا نہ سر تھا نہ پیر، اس کو اتنا فائدہ دیا کہ پوری جماعت متحرک ہو گئی اور الیکشن کے آخری وقت میں اس فیصلے کے سیاسی اثرات بھی تھے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اب انہیں وہ دیا گیا ہے جو انہوں نے مانگا ہی نہیں اور جس کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش ہی نہیں، ان کو بس ایسے ہی نشستیں بانٹ دی گئیں جیسے ٹافیاں دیتے ہیں، جب تک ملک آئین و قانون کے مطابق نہیں چلے گا اور جب تک ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے تب تک جس مقصد کیلئے ہم یہاں بیٹھیں ہیں اس پر عوام کی امیدوں کے مطابق نہیں چل سکیں گے، ہم الیکشنز کے دوران سیاست کی جو گرما گرمی ہے وہ ایسے پوائنٹ تک لے کر آ جاتے ہیں کہ نفرت کی سیاست اب ہر طرف نظر آ رہی ہے، اگر ہم بات کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم میں صلاحیت ہے کہ ہم متفقہ رائے بنا کر سیاست کو چلا سکیں گے۔