کراچی (تھرسڈے ٹائمز) — چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میں اس خاندان اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جس نے پاکستان کو آئین دیا، ہم نے دیکھا کہ یہاں آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑایا جاتا رہا، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیرِ التواء ہیں، عدالتی نظام میں 15 فیصد سیاسی مقدمات کو 90 فیصد وقت دیا جاتا ہے، ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمارا سندھ ہائیکورٹ سے تعلق تین نسلوں سے ہے، ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، میں اس خاندان اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جس نے پاکستان کو آئین دیا، ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھے ہیں، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے 1973 کے آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑا دیا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طریقہ سے ہمارے معزز جج صاحبان آمر کو آئین اڑانے کا کام کرنے دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آمر دس دس سالوں تک جمہوریت اور آئین کو بھول جاتے ہیں اور ملک میں سارا اختیار ایک آمر کو دیا جاتا ہے، آمر پرویز مشرف کے دور میں ہمارے آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور افسوسناک بات ہے کہ معزز جج صاحبان نے اس آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کر سکتے ہیں، پہلی دفعہ پی سی او پر حلف لینا جائز ہوتا ہے لیکن دوسری مرتبہ برا ہوتا ہے اور پھر چیف تیرے جانثار بےشمار کے نعرے لگائے جاتے ہیں، ہم نے جمہوریت کی بحالی کیلئے نسلوں کی قربانیاں دی ہیں تاکہ عوام کی مرضی چلے اور پارلیمنٹ میں ایسے نمائندے بھیجیں کہ آپ کی مرضی کا قانون بنے اور آپ کی مرضی کا آئین بنے۔
سابق وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے یہ طے کیا کہ اگر ہم نے پاکستان کا نظام ٹھیک کرنا ہے اور جمہوریت کو بحال کرنا ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے ہیں تو میثاقِ جمہوریت جیسے معاہدوں کو لاگو کرنا ہو گا، اس میثاقِ جمہوریت کے تحت 18ویں ترمیم پاس کرنے اور 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے بعد ہم نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نامکمل مشن کو پورا کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جب افتخار چوہدری کوئی انقلابی نہیں بلکہ ایک پی سی او جج تھے تب شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ طے کیا تھا کہ آئینی عدالت بنے گی اور عدالتی اصلاحات ہوں گی اور عوام کو فوری انصاف ملے گا، ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھے ہیں، ہم اپنی وکلاء برادری کی بہت عزت کرتے ہیں، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعہ نہیں ہوسکتی لیکن جج صاحبان نے 184 اور 186 کے نام پر خود کو اختیار دیا کہ وہ آئین سازی کر سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ امریکہ میں جب سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ہوتی ہے تو پوری پارلیمنٹ سامنے بیٹھی ہوتی ہے، یہ کوئی پاکستانی ٹی وی چینل کا انٹرویو نہیں ہوتا، وہاں عوام کے نمائندے اس جج سے سوالات پوچھتے ہیں اور اگر پارلیمنٹ کہے کہ یہ جج بننے کے قابل ہے تو وہ جج بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک امریکہ میں آمریت نہیں آ سکی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیرِ التواء ہیں، مجھے انصاف کے حصول کیلئے 45 سال انتظار کرنا پڑا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہریوں کو فوری انصاف ملے اور کسی صوبے کے درمیان کوئی فرق نہ رہے تو پھر وفاقی آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے، وفاقی عدالت میں ہر صوبہ کی برابر کی نمائندگی ہو گی، وفاقی عدالت کا چیف جسٹس روٹیشن پر ہو گا اور ہر صوبہ کے چیف جسٹس کو نمائندگی کرنے کا موقع ملے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے عدالتی نظام میں 15 فیصد سیاسی مقدمات کو 90 فیصد وقت دیا جاتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے تو جس کام کیلئے یہ ادارے بنے ہیں ان کو وہ کام کرنے دیا جائے، آئین میں 58 ٹو بی اور 63 اے ایک ایسا ہتھیار تھا جس کو استعمال کر کے جمہوری حکومتوں کو غیرجمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا، اس کالے قانون کو ختم کرنے کیلئے طویل جدوجہد کی گئی اور آخر کار اس کو ختم کیا گیا، افسوس کہ 58 ٹو بی کا اختیار عدالت نے اپنے پاس رکھ کر منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا، عدالت نے آئین میں ترمیم کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا اور انہوں نے 63 اے کے فیصلہ میں آئین میں ترمیم کی۔
سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کسی وزیراعظم، کسی جج اور کسی ادارے کی نیت پر شک کرتے ہیں تو کریں لیکن میری نیت پر شک نہ کریں، آئین کی بالادستی کی جنگ میں خود لڑوں گا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کو منصفانہ نمائندگی حاصل ہو، ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے تاکہ کسی اور وزیراعظم کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جائے اور اس ملک کی عوام کو انصاف ملے۔
پارلیمنٹ میں فلور کراسنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا اور برطانیہ کا نظام اٹھا کر دیکھ لیں وہاں کوئی اس قسم کی پابندی نہیں کہ وہ اپنی پارٹی پالیسی پر پابند ہوں اور وہ اپنی پارٹی لائن توڑنے میں آزاد ہیں، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں جو ترمیم لے کر آئے وہ پہلے نہیں تھی، جس میں ہم نے کہا کہ ہم بطور رکنِ اسمبلی آئینی ترمیم اور بجٹ اور عدم اعتماد اپنی پارٹی کی لائن کے پابندی ہیں لیکن اگر کوئی رکن ایسا نہیں کرنا چاہتا تو اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ لکھا کہ اگر کوئی پارلیمنٹرین ان اہم معاملات پر پارٹی لائن توڑ کر ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو وہ ووٹ گنا جائے گا جبکہ ہمارے پاس اور نہ کسی عدالت کے پاس یہ اختیار ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ وہ کسی پارلیمنٹرین پر پارٹی لائن فالو کرنے کی پابندی رکھے، ایک مقصد کے تحت 63 اے کا فیصلہ سنایا گیا، ہم نہیں چاہتے کہ فلور کراسنگ آسان ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے کیلئے سخت سزا ہو اور جب اسے یہ خطرہ ہو گا کہ فلور کراسنگ کی صورت میں اس کے حلقے میں ضمنی انتخاب ہو گا تو وہ اپنے ووٹ پر سوچے گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب یہ کہا جائے گا کہ فلور کراسنگ پر اس پارلیمنٹرین کو تاحیات نااہل کر دیا جائے گا اور اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا تو اس کا مطلب آپ اس رکن کو جسے بجٹ پسند نہیں یا پھر وہ آئی ایم ایف کی شرائط سے متفق نہیں یا پھر آئینی ترمیم پر رضامند نہیں تو آپ اسے تاحیات نااہلی کی سزا پر دھمکا کر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اس پر ووٹ دے۔