اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، عدم اعتماد میں اگر ووٹ نہ گنا جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا جس سے آرٹیکل 95 غیر فعال ہوتا ہے، کسی کے ضمیر کا معاملہ طےکرنا مشکل ہے، ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں؟ کیا صدارتی ریفرنس اور 184 تھری کی درخواستوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرِثانی درخواستوں پر آج دوسری سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے جبکہ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔
لارجز بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان کی شمولیت
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس منیب اختر سے بینچ میں شمولیت کی درخواست کی گئی تاہم انہوں نے اپنا پرانا موقف برقرار رکھا، آج کل سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، کیس کی فائل میرے پاس آئی، میں نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شمولیت سے انکار کیا جس پر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر کا بینچ پر اعتراض
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ایڈووکیٹ علی ظفر نے استدعا کی کہ میں بینچ پر اعتراض اٹھانا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا آپ اپنی نشست پر واپس چلے جائیں، ہم آپ کو بعد میں سنیں گے، ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ بھی خیال رکھیں۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کے دلائل
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کیس کا پسِ منظر پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 184 تھری کی درخواستیں بھی تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ دونوں دائرہِ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ ریفرنس پر رائے اور 184 تھری دو الگ الگ دائرہِ اختیار ہیں۔ دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، کیا عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی فیصلہ جاری کیا؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدارتی ریفرنس پر دی گئی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہو سکتی، اُس وقت صدر کون تھا؟
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ اُس وقت عارف علوی صدرِ مملکت تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہی حکومت بطورِ حکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی، صدر کی جانب سے کیا قانونی سوالات اٹھائے گئے تھے؟
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ صدرِ پاکستان نے ریفرنس میں 4 سوالات اٹھائے تھے، آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، عدالت نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کیلئے اہم ہیں اور پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کیلئے کینسر ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ یہ رائے صدرِ مملکت کے سوال کا جواب نہیں تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟
شہزاد شوکت نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں، بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کیلئے کینسر کا لفظ لکھا گیا، کینسر لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا، کیا فیصلے میں منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا بھی لکھا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہو گا، ڈی سیٹ کرنے کا حکم فیصلے میں نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں تحریکِ عدم اعتماد، وزیراعظم اور وزیرِ اعلٰی کا انتخاب اور منی بل کی وضاحت موجود ہے، جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر رکن نااہل ہو گا؟ فیصلہ تو اس معاملہ کو جماعت کے سربراہ پر چھوڑ رہا ہے، جماعت کے سربراہ کی مرضی ہے کہ چاہے تو نااہل نہ کرے، جماعت کا سربراہ اگر ڈیکلیئریشن نااہلی کا بھیجے ہی نہ تو کیا ہو گا؟
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا، یعنی آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہو گیا۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ نہ گنا جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عدالت نے فیصلے میں آرٹیکل 95 پر کچھ کہا؟ کسی جماعت کا رکن پارٹی سربراہ کو پسند نہ کرے اور ہٹانا چاہے تو کیا کیا جائےگا، اگر اراکین کا ووٹ تک گنا ہی نہیں جا سکتا تو کیا کیا جائےگا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں انھی دنوں اپنی ہی جماعت کے لوگ اپنے وزیرِ اعلٰی کے خلاف عدم اعتماد لائے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ برطانیہ میں حال ہی میں ایک ہی جماعت نے اپنے وزیراعظم تبدیل کیے، اس دوران جماعت نے ہاؤس میں اکثریت بھی نہیں کھوئی۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا انحراف کرپٹ پریکٹس جیسا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طےکرنا مشکل ہے، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کو متاثر نہیں کرتا؟ کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں؟
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف ہے
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ضمیر کے معاملات کے فیصلے کرنا مشکل جبکہ حقائق پر فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے، کیا آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ آئین کے آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف نہیں؟
شہزاد شوکت نے کہا کہ جی بالکل یہ فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ضمیر کا فیصلہ کون کرے گا؟ لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟ کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا بےایمان ہیں؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں؟ ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنے والے؟
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہو گا، ایسے میں تعین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہو گا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف پر جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، فیصلے میں وضاحت موجود ہے کہ نااہلی سے متعلق کون سی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اور کون سی نہیں، امریکی آئین میں انحراف سے متعلق کیا ہے؟
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ وہاں اراکین ووٹنگ کیلئے آزاد ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ امریکا میں انحراف کی سزا نہیں جبکہ فیصلے میں تو امریکی سپریم کورٹ کے حوالے دیئے گئے ہیں!
شہزاد شوکت نے استدعا کی کہ ہماری گزارش ہے فیصلے کو واپس لیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے؟
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آئین کو از سرِ نو تحریر کرنے جیسا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ صرف یہ نہیں کہتاکہ آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا، فیصلہ کہتا ہے کہ پارٹی کہے تو ووٹ لازمی کرنا ہے، پارٹی کے کہنے پر ووٹ نہ کرنے پر رکن کے خلاف کاروائی کا کہا گیا ہے، نظرِثانی درخواست کب دائر ہوئی؟
شہزاد شوکت نے بتایا کہ 2022 میں نظرِثانی درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عابد زبیری بھی جب صدر سپریم کورٹ بار بنے تو اپیل واپس نہیں لی، سپریم کورٹ بار کے دونوں گروپس نظرِثانی درخواست پر قائم رہے، چلیں تسلی ہوئی کہ نظرِثانی بار سیاست کی وجہ سے نہیں تھی۔
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ نظرِثانی خالصتاً آئینی مسئلہ ہی تھا، واقعہ کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ کسی بھی رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا۔
بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے نظرِثانی کی مخالفت
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی نظرِثانی کی مخالف کون کر رہا ہے؟
پی ٹی آئی کے علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کا وکیل ہوں لیکن نوٹس تاحال موصول نہیں ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ ویسے بتا دیں آپ نظرِثانی کے حامی ہیں یا مخالف ہیں؟
علی ظفر نے کہا کہ میں نظرِثانی کی مخالفت کروں گا۔
یپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ووٹ نہ گنا جانا آئین میں نہیں لکھا، اگر ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا تو مطلب ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا، انحراف کا اطلاق تب ہو گا جب ووٹ گنا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں جن ممالک کے فیصلوں کا حوالہ ہے ان ممالک میں انحراف کی سزا کا بھی بتائیں، فریقین یہ بھی بتائیں کیا صدارتی ریفرنس اور 184 تھری کی درخواستوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے؟ پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ ہے وہاں کی صورتحال بتائیں؟ نظرِثانی منظور ہونا یہ نہیں ہوتا کہ فیصلہ غلط ہے، وجوہات غلط ہوتی ہیں، نظرِثانی کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے، آپ فیصلے کا نتیجہ نہیں صرف وجوہات دیکھ سکتے ہیں۔
کیس کی سماعت کل تک ملتوی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس کی سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، جو وکلاء رہ گئے ہیں ان کے دلائل کل سنیں گے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرِثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
سماعت کا تحریری حکم نامہ
آج کی سماعت سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ نظرِثانی درخواست 3 دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا، درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود نہ ہونے پر نظرِثانی تاخیر سے دائر ہوئی، رجسڑار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھا، رجسڑار معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا، ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا، دورانِ سماعت کچھ سوالات سامنے ائے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے اگاہ کریں، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے ہماری حاضری لگا لیں۔
گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرِثانی کیس کی پہلی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ حکم نامہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت 5 رکنی بینچ نے کی تھی، بینچ میں اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔
صدارتی ریفرنس کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا اور اکثریتی فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن کی حمایت حاصل تھی جبکہ اقلیتی ججز جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیے تھے۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 23 جون 2022 کو نظرِثانی اپیل دائر کی تھی، جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا ہے جس میں بینچ میں شمولیت سے معذرت کی گئی ہے، آج جسٹس منیب اختر نے اپنے دیگر مقدمات کی سماعت معمول کے مطابق کی اور چائے خانہ میں بھی میرے اور دیگر ججز کے ساتھ تھے۔
تحریری حکم نامہ میں ہدایت کی گئی کہ رجسٹرار حکم نامہ کی کاپی جسٹس منیب اختر کے سامنے رکھیں اور جسٹس منیب سے بینچ کا حصہ بننے کی درخواست کریں اور جسٹس منیب انکار کریں تو ججز کمیٹی نیا جج بنچ میں شامل کرے گی