This article was originally published on WeNews
مرید اور مرشد کا رشتہ بہت عجیب ہوتا ہے۔ اس میں اطاعت لازمی ہوتی ہے۔ رازداری شرط ہوتی ہے۔ فرمانبرداری لازم ہوتی ہے۔ بیعت کرنا پڑتی ہے۔ انکار کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
جنرل فیض حمید کو چارج شیٹ کر دیا گیا۔ کیس روز بہ روز آگے بڑھ رہا ہے۔ الزامات بہت سنگین ہیں۔ کرپشن بھی ہے، اختیارات سے تجاوز بھی، سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت بھی ہے اور 9 مئی کا انتشار بھی۔ فیصلہ آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، لیکن فیصلہ دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے۔
اگر معافی کا ارادہ ہوتا تو کیس اس نہج پر پہنچنے سے بہت پہلے دم توڑ چکا ہوتا۔ لیکن یہ کیس ملٹری کورٹ میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے۔ جیسے جیسے کیس آگے بڑھتا ہے، ہر دفعہ ایک نیا ہنگامہ مچ جاتا ہے۔ کبھی فائنل کال کا شور مچتا ہے، کبھی کوئی پختونخواہ سے پُرتشدد قافلہ نکلتا ہے۔ اس سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہونی کو ٹال دیا جائے۔ جو فیصلہ ہونا ہے اس مؤخر یا منسوخ کر دیا جائے۔
حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ فیصلے اٹل ہوتے ہیں ان کو ہونا ہی ہوتا ہے۔ ان میں دیر سویر ہو سکتی ہے مگر منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ ان فیصلوں کے بعد ہی تاریخ کا نیا سفر شروع ہوگا۔ اس سے پہلے صرف شور ہے، انتشار ہے، ہنگامہ ہے۔ اس کے بعد سکون ہو گا۔ خاموشی ہو گی۔
اب سوال یہ ہے کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو ہر دوسرے دن عمران خان کی رہائی کی نوید لوگوں کو سنا رہے تھے۔ کدھر گم ہو گئے ہیں وہ یوٹیوبرز جو کہتے تھے کہ سال ختم ہونے سے عمران خان کے اقتدار کا نیا سوج طلوع ہو گا۔ کدھر ہیں وہ ڈالرز کے بدلے تحریکِ انصاف کے سپورٹرز میں خوشخبریاں تقسیم کرنے والے کہ خان کی رہائی بس ہوئی کہ ہوئی۔
اس نابکار انبوہ نے لوگوں کو بنا کسی وجہ کے امید میں مبتلا رکھا۔ لوگوں کو وہ سنایا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ یہ یوٹیوبرز حق سچ کے تکلف میں نہیں پڑے۔ انہیں پتا تھا کہ خان کی سپورٹ سے ڈالرز نصیب ہوں گے۔ پراپیگنڈا کے بدلے آپ صحافی کہلائیں گے۔ جھوٹ بولنے پر آپ کو عظمت کے تمغے ملیں گے۔ سوشل میڈیا والوں نے لوگوں کو امید میں مبتلا کیے رکھا کہ اب رہائی بس ہونے کو ہے۔ اب قید تنہائی بس ختم ہونے کو ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوا کہ جھوٹ کے اس بیوپار میں انہوں نے لوگوں کو ورغلایا اور ڈالرز کی خاطر بےوقوف بنایا۔ اب مرحلہ یہ ہے کہ حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے کہ خان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔
جب ادارے نے فیض حمید کے حوالے سے فیصلہ کر لیا۔ جب اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں پر کریک ڈاؤن کا فیصلہ ہو گیا تو عمران خان کس کھیت کی مولی ہے۔
فیض حمید پر کورٹ مارشل کی چارج شیٹ ہونا بہت بڑا واقعہ ہے۔ ادارہ جب اپنے لوگوں کو انتشار کی سزا دے سکتا ہے۔ اپنے لوگوں کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر کورٹ مارشل کر سکتا ہے۔ اپنے ادارے کی بےتوقیری پر اپنے ایک بہت ہی سینیئر جرنل کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے تو پھر کسی اور کی کوئی حیثیت نہیں۔
فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کے بعد وہ یوٹیوبرز جو عمران خان کی رہائی کے امکان پر شادیانے بجا رہے تھے، ان کو اپنے یوٹیوب چینلز پر ماتمی دھنیں لگا دینی چاہئیں، کیونکہ عمران خان بھی اتنے ہی شریکِ جرم ہیں۔ ادارے کے خلاف انہوں نے بھی لوگوں کو بغاوت پر اکسایا ہے اور یہ ادارے کو کسی طرح بھی قبول نہیں۔ یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کی سزا بھی اتنی عبرتناک ہو گی کہ زمانہ یاد کرے گا۔
چارج شیٹ کے بعد اگلا مرحلہ ہے لاٹھی چارج کا۔ اب لاٹھی چارج ہو گا۔ ہر اس شخص، ہر اس جماعت، ہر اس ادارے کے خلاف جس نے وطن کی حرمت پر داغ لگایا۔ جس نے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ جس نے ادارے کے اندر بغاوت کی کوشش کی۔ جس نے سرکاری اور فوجی املاک کو نقصان پہنچایا۔
اس معاملے میں پی ٹی آئی سرِ فہرست ہے۔ ہر دھرنے، ہر مارچ کے بعد ان کے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو لوگ ابھی 9 مئی کے مجرموں کو نہیں بھولے، یاد رکھیں وہ 26 نومبر کو رینجرز کے جنازے بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ اب علی امین گنڈا پور ہوں یا کوئی اور، اب بغاوت کی سزا ملے گی۔ اب کسی کو اداروں پر پھبتیاں کسنے کا موقع نہیں دیا جائے۔ اب تضحیک آمیز نعروں، سوشل میڈیا پر پھیلی دشنام کی فیکٹریوں اور گلی بازاروں میں روا غنڈا گردیوں کے قلع قمع کا وقت آ گیا ہے۔ اب تحریکِ انصاف کیلئے حالات ایک سنگین موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔
بہت سے لوگ سوچتے ہوں گے کہ حالات کو یہاں تک لانے میں زیادہ قصور کس کا ہے۔ بغاوت کا پہلا درس کس نے دیا؟ ادارے کے خلاف نعرے لگانے کا حکم کس نے دیا؟ شورش کی وجہ فیض حمید ہیں یا عمران خان؟ 9 مئی کا اصل مجرم فیض ہے یا عمران؟ زیادہ قصور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا ہے یا سابق وزیراعظم کا؟ حالات بگاڑنے کا سہرا کس کے سر سجتا ہے؟ آبپارہ کے سابق رہائشی کا یا وزیراعظم ہاوس میں رہنے والے سابق وزیراعظم کا؟
شواہد نہیں شنید ہے کہ اس تباہ کاری میں 2 نہیں 3 لوگ تھے۔ یہ انتشار ایک تکون کا نتیجہ تھی۔ بہت زیادہ بات نہیں کی جا سکتی۔ خود سمجھ لیں کہ عمران خان کی مرشد بشریٰ بی بی تھیں تو کیا ہے کہ بشریٰ بی بی کے مرشد بھی کوئی رہے ہوں گے۔ یعنی ایک ہی وقت میں بشریٰ بی بی مرشد بھی تھیں اور مرید بھی۔ ایک ہی وقت میں وہ بات مان بھی رہی تھیں اور منوا بھی رہی تھیں۔ بات گنجلک ہوتی جا رہی ہے اور کُھل کر بات کی نہیں جا سکتی، بس اتنا سمجھ لیں کہ مرید اور مرشد کا رشتہ بہت عجیب ہوتا ہے۔ اس میں اطاعت لازمی ہوتی ہے۔ بیعت کرنی پڑتی ہے۔ انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ رازداری شرط ہوتی ہے۔ فرمانبرداری ضروری ہوتی ہے۔