spot_img

رائے: مریم نواز کے سفارتی مصافحہ پر تنقید کی آڑ میں صنفی تعصب کا پرچار

مریم نواز شریف کے متحدہ عرب اماراتی صدر کیساتھ سفارتی مصافحے پر بےجا تنقید نے صنفی تعصب کو بےنقاب کر دیا۔ یہ تنقید مریم نواز کے انقلابی اقدامات اور اصلاحاتی پالیسیز پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ مریم نواز کی قیادت صنفی تعصب کے خلاف مزاحمت کی علامت بھی ہے۔

spot_img

مریم نواز کا پاکستان میں پہلی خاتون وزیرِ اعلٰی (پنجاب) کے طور پر منتخب ہونا بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس انتخاب کو سراہا گیا تاہم اس کے ساتھ ہی پاکستان میں کچھ حلقوں کی جانب سے اس کی سخت مخالفت سامنے آئی اور وسیع پیمانے پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس سے معاشرے میں خواتین کے خلاف تعصبانہ رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس تعصب کی تازہ ترین جھلک متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النیہان کی پاکستان آمد پر مریم نواز کے ساتھ ان کے مصافحہ کے بارے میں پی ٹی آئی راہنماؤں اور حامیوں کی تنقید میں دیکھی جا سکتی ہے۔

سربراہانِ ریاست کی آمد پر ان سے مصافحہ کوئی نئی اور اچنبھے کی بات نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی سطح طرفہ تعلقات کیلئے ایک معمول کا سفارتی پروٹوکول ہے جس کو پاکستان میں وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں سوال ابھرتا ہے کہ آخر پاکستان میں خواتین راہنماؤں کو ان کے سیاسی کردار کے حوالہ سے جانچنے کی بجائے ان پر ذاتی نوعیت کے حملے کیوں کیے جاتے ہیں؟

پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں طویل عرصہ سے پدرانہ نظام معاشرتی ڈھانچے کو تشکیل دیتا آیا ہے اور کسی خاتون کو اقتدار کے مسند تک پہنچنے پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مریم نواز شریف کے مصافحہ پر تنقید بھی اس سیاسی منظر نامہ پر خواتین کی موجودگی کے خلاف دیرینہ بےچینی کی عکاسی کرتی ہے جو تاریخی طور پر مردوں کے زیرِ تسلط رہا ہے۔ مریم نواز شریف کے اس عمل پر تنقید معاشرتی تعصب کی علامت کے ساتھ ساتھ اہم معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہے۔

اس تنقید کا سلسلہ مریم نواز کی بطور وزیرِ اعلٰی کامیابیوں سے واضح طور پر برعکس دکھائی دیتی ہے۔ ان کی قیادت میں پنجاب نے ٹیکنیکل جدت، معاشی ترقی اور سماجی مساوات کو فروغ دینے کیلئے انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ نواز شریف آئی ٹی سٹی جیسا اہم منصوبہ پنجاب کو ٹیکنیکل مرکز کے طور پر ابھارنے کی طرف بڑا قدم ہے جس سے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔ روشن مستقبل کیلئے ایسے اقدامات کو مریم نواز کے سفارتی مصافحہ پر تنقید جیسے عمل سے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے ان کے مخالفین کی ترجیحات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ تنقید سیاسی مخاصمت سے آگے بڑھ کر ثقافتی ہچکچاہٹ کو بھی ظاہر کرتی ہے جو خواتین کو بااختیار حیثیت میں قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مریم نواز شریف پر کی جانے والی تنقید ایک ایسے سماجی تعصب کی علامت ہے جو پاکستان میں ترقی اور جدت کے باوجود گہرے اثرات رکھتا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک انٹرویو کے دوران دیئے گئے ریمارکس کہ ’’اگر ایک عورت کم لباس پہنے تو اس کا مردوں پر اثر پڑے گا جب تک کہ وہ مرد روبوٹ نہ ہوں‘‘ پاکستانی سیاست میں موجود صنفی تعصب کی گہری جڑوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس تبصرے کو ریپ کلچر کو پروان چڑھانے اور متاثرین کو موردِ الزام ٹھہرانے کی وجہ سے وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس تبصرے میں مردوں کی تحقیر کرتے ہوئے یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ ان کے اعمال پر ان کی گرفت نہیں ہے۔ ایسے کئی بیانات اور پھر مریم نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں کے دوران ان کے خلاف جنسی نوعیت کے جملے صنفی تبصروں کے استعمال کے اس رجحان کی عکاسی کرتے ہیں جس کے ذریعہ اہم سیاسی معاملات اور موضوعات سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت کی جانب سے صوبہ کے عوام بالخصوص خواتین کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کرنے والے اقدامات ان کے عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال خواتین کی حفاظت کیلئے بنائی گئی ’’نیور اگین‘‘ ایپ ہے جو خواتین کو تشدد کا مقابلہ کرنے اور اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے قابل بناتی ہے۔ ورک پلیس ڈے کیئر سینٹرز کا قیام بھی اس کی ایک بڑی مثال ہے جو کام کرنے والی ماؤں کیلئے ذیادہ مستحکم اور محفوظ انداز میں کام کرنے کا ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ اقدامات معاشرے میں خواتین کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مریم نواز شریف کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔

ان کامیابیوں کے باوجود مریم نواز کو جس طرح کے ردعمل کا سامنا ہے وہ اس پریشان کن حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں کا جائزہ لینے کیلئے معیارات واضح طور پر مردوں کیلئے مدنظر رکھے جانے والے پیمانوں سے مختلف ہیں۔ ایک طرف مرد راہنماؤں کیلئے ان کے پالیسی اقدامات اور طرزِ حکمرانی کا جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب خواتین راہنماؤں کیلئے اکثر ان کے برتاؤ، ظاہری شکل و صورت یا روایتی صنفی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ محمد بن زید کے ساتھ مریم نواز شریف کی سفارتی ملاقات ریاستی سطح پر تعلقات کیلئے ایک معمول کی سرگرمی ہے تاہم اسے غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد ان کی بطور وزیرِ اعلٰی حیثیت کو نقصان پہنچانا ہے۔

لاہور میں ایجوکیشن سٹی پروجیکٹ عالمی سطح کی بڑی یونیورسٹیز کو راغب کرتا ہے جبکہ فری میڈیسن ڈیلیوری پروجیکٹ ضرورت مند افراد کو ان کی دہلیز پر ضروری ادویات کی مفت اور بروقت فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ مریم نواز کے یہ انقلابی اقدامات ان کے ترقی پسند پنجاب کے ویژن کی عکاسی کرتے ہیں لیکن ان کامیابیوں کو اکثر سنسنی خیز تنازعات کے پردوں میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مصافحہ جیسے معمولی معاملات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ناقدین درحقیقت ان کے قابلِ تعریف اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تعصب پر مبنی اس تنقید کو مریم نواز کے خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے کیے گئے اقدامات کے جواب کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ خواتین کی ایتھلیٹک صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والی ’’سی ایم پنک گیمز‘‘ کھیلوں میں خواتین کیلئے رکاوٹیں دور کرنے کے عزم کی گواہی ہیں۔ تاہم ان کوششوں کو تسلیم کرنے کے بجائے مخالفین غیر اہم چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ مریم نواز کے خلاف کی جانے والی صنفی تنقید ایک گہرے ثقافتی چیلنج کی بھی علامت ہے جس کے تحت معاشرے میں خواتین کو بااختیار حیثیت ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جبکہ ان کے ہر عمل کا جائزہ ثقافتی توقعات کی بنیادوں پر لیا جاتا ہے جس کا اکثر ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

تاہم ۔۔ مریم نواز کی قیادت اس تعصب کے خلاف ایک طاقتور متبادل بیانیہ پیش کرتی ہے۔ ان کے اقدامات ایک ایسے پنجاب کے ویژن کی عکاسی کرتے ہیں جو ترقی پسند اور مستقبل کے بارے میں سوچنے والا ہو گا۔ ڈے کیئر مراکز اور ’’نیور اگین‘‘ کا قیام نہ صرف پالیسی اقدامات ہیں بلکہ صنفی مساوات کیلئے ایک وسیع تر عزم کی علامت ہیں۔ مریم نواز خواتین کو درپیش نظامی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے موجودہ نظام کو چیلنج کر رہی ہیں جس سے پاکستان میں قیادت کا ایک نیا مفہوم سامنے آ رہا ہے۔

یہ تنقید خواتین کے حوالہ سے معاشرتی رویوں کی تشکیل میں سیاست کے کردار پر بھی اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ مریم نواز شریف پر کی جانے والی تنقید، جو اکثر صنفی تعصب پر مبنی ہوتی ہے، ایک ایسی سیاسی حکمتِ عملی کو ظاہر کرتی ہے جس کے تحت ان کی قیادت کو جنس کی بنیاد پر کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ حکمتِ عملی نہ صرف مریم نواز شریف کے خلاف ہے بلکہ یہ تمام خواتین کیلئے نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو بھی فروغ دیتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے صدر کے ساتھ مریم نواز کی سفارتی ملاقات کو بین الاقوامی تعلقات اور ریاستی معاملات کے وسیع تر سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ مصافحہ ایک معمولی سفارتی علامت ہے جس کو ثقافتی اصولوں کی خلاف ورزی کے طور پر غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ صنفی تعصب پر مبنی یہ تنقید پنجاب کی ترقی میں مریم نواز کے ٹھوس کردار سے توجہ ہٹانے کا کام کرتی ہے۔ ایسے غیر اہم معاملات کو بُرائی کی صورت میں پیش کرنا ان کی قیادت میں ہونے والی حقیقی پیش رفت سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ نواز شریف آئی ٹی سٹی اور لاہور میں ایجوکیشن سٹی جیسے منصوبے ایسے انقلابی اقدامات ہیں جو پنجاب کو ٹیکنالوجی اور تعلیم میں راہنما کے طور پر ابھارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ان کامیابیوں کو اکثر ایسے مباحثوں کے ذریعہ دبا دیا جاتا ہے جو ثقافتی پابندیوں کو تعمیری مکالمے پر ترجیح دیتے ہیں۔

مریم نواز کی بطور وزیرِ اعلیٰ حیثیت معاشرتی تعصب کے خلاف ان کی جانب سے مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ ان کی قیادت عوام کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پُرعزم دکھائی دیتی ہے جیسا کہ فری میڈیسن ڈیلیوری کے ذریعہ صحت کی دیکھ بھال اور ادویات کی ضرورت مند افراد تک مفت اور بروقت رسائی کو یقینی بنانا اور ’’سی ایم پنک گیمز‘‘ جیسے اقدامات کے ذریعہ خواتین کو بااختیار بنانا۔ یہ کوششیں ایک ایسے پنجاب کے ویژن کی عکاسی کرتی ہیں جو مساویانہ حقوق اور جامع پالیسی رکھتا ہو۔

ایک خاتون وزیرِ اعلیٰ کو جس طرح کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ مرد کی حکمرانی والے دیرینہ سیاسی منظر نامہ کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ مصافحہ جیسے معمولی معاملات پر توجہ مرکوز کر کے مریم نواز کے مخالفین ان اقدامات پر دھیان دینے سے انکار کرتے ہیں جن کے ذریعہ عوام الناس کے کئی اہم مسائل حل ہوئے ہیں۔ یہ تعصب نہ صرف ان کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی پردہ ڈالتا ہے۔

بہرحال ۔۔۔ مریم نواز کی قیادت اس تعصب کے خلاف میدان میں طاقتور مدمقابل کی طرح ہے۔ خواتین کو درپیش نظامی و معاشرتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور انہیں محفوظ و بااختیار بنانے والے اقدامات کو فروغ دے کر مریم نواز  موجودہ نظام کو چیلنج کر رہی ہیں اور پاکستان میں قیادت کا ایک نیا مفہوم پیش کر رہی ہیں جو معاشرے کی تشکیلِ نو کیلئے اشد ضروری ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

spot_img

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: