اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان پہلی مرتبہ امریکہ سے خام تیل درآمد کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے تاکہ امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو متوازن کیا جا سکے، جس کے باعث امریکی حکومت نے برآمدات پر بھاری محصولات عائد کر دیے ہیں۔ یہ تجویز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع درآمدی ٹیکس اقدامات کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جنہوں نے عالمی معیشتوں اور منڈیوں میں بےچینی پیدا کر دی ہے۔
تجارتی خسارے کا اسٹریٹجک حل
پاکستان کا امریکہ کے ساتھ تجارتی خسارہ تقریباً 3 ارب ڈالر ہے، جس کے نتیجے میں امریکی حکومت نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا ہے، اس کے علاوہ بنیادی 10 فیصد ٹیرف بھی لاگو ہے۔ پاکستانی حکام اب تقریباً 1 ارب ڈالر مالیت کا امریکی خام تیل درآمد کرنے کی تجویز پر غور کر رہے ہیں، تاکہ یہ تجارتی توازن بحال کیا جا سکے اور محصولات کے دباؤ میں نرمی لائی جا سکے۔
توانائی کے ذرائع میں وسعت
پاکستان طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ کے تیل پر انحصار کرتا آ رہا ہے، جہاں سے 2024 میں 5.1 ارب ڈالر کا تیل درآمد کیا گیا۔اب حکومت توانائی کے ذرائع کو متنوع بنانے کی طرف گامزن ہے، اور امریکی تیل کی درآمد اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔یہ قدم نہ صرف توانائی کے منظرنامے کو تبدیل کرے گا بلکہ امریکہ کے ساتھ تجارتی روابط بھی مضبوط کرے گا۔
اقتصادی اثرات اور اخراجات
امریکی تیل درآمد کرنے سے فریٹ اور نقل و حمل کے اخراجات بڑھ سکتے ہیں، جو فی بیرل تقریباً 3 ڈالر اضافی ہوں گے۔ حکام کے مطابق، عوام پر اس کا اثر محدود ہو گا اور ایندھن کی قیمت میں صرف 0.50 روپے فی لیٹر کا معمولی اضافہ متوقع ہے۔یہ فیصلہ معیشت میں استحکام لانے اور عالمی تجارتی دباؤ کا جواب دینے کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔
وسیع تجارتی مذاکرات
خام تیل کے علاوہ، پاکستان امریکی مشینری، سویا بین، اسٹیل اور آئرن کی درآمد پر بھی غور کر رہا ہے۔یہ سب اقدامات امریکہ کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے کی جامع کوشش کا حصہ ہیں۔اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد جلد واشنگٹن روانہ ہو گا تاکہ ٹیرف اور تجارتی معاہدوں پر مذاکرات کر سکے۔
عالمی تناظر اور رجحانات
پاکستان کی یہ حکمت عملی ان کئی ممالک سے مشابہت رکھتی ہے جو امریکی ٹیرف سے بچنے کیلئے اپنی درآمدات کا رخ امریکہ کی طرف موڑ رہے ہیں۔بھارت، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک بھی اسی طرح کے اقدامات کر چکے ہیں۔یہ رجحان عالمی اقتصادی حکمت عملیوں میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو متحرک عالمی تجارتی پالیسیوں کے اثرات کا براہ راست نتیجہ ہیں۔