رائے: قومی مزاحمت کا سفر: پاکستان نے ایٹمی طاقت کیسے حاصل کی؟

تاریخ ہمیشہ کانفرنس ہالوں یا کاک ٹیل پارٹیوں میں نہیں بنتی۔ بعض اوقات یہ اندھیرے میں لکھی جاتی ہے — اُن لوگوں کے ہاتھوں جو بقا کے لیے جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی ایسا ہی ایک لمحہ تھا: ایک زخمی، تنہا اور دیوار سے لگی ہوئی قوم، جس کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ طاقت کے اس کلب میں اپنی جگہ خود بنائے — جہاں پہنچنا صرف بہادروں کے حصے میں آتا ہے۔

پاکستان کے ایٹمی سفر کی کہانی نہ تو جنیوا کی کانفرنسوں کے نرم لہجوں میں لکھی گئی، نہ ہی کسی بلند و بالا محل میں ہونے والی معاہدوں کی تالیاں اس کی گواہ ہیں۔ یہ کہانی ان اندھیری گلیوں میں جنم لیتی ہے جہاں بین الاقوامی طاقت کے اصول سرد، بے رحم اور خود غرض ہیں۔ پاکستان کا جوہری ہتھیار بنانا نہ تاریخ کا کوئی اتفاق تھا، نہ کسی عالمی طاقت کی خیرات؛ بلکہ یہ ایک ایسا عمل تھا جو مسلسل مزاحمت، قربانی اور خودداری کی بنیاد پر پروان چڑھا — بین الاقوامی نظام کے خلاف بغاوت، اور زندہ رہنے کے حق کے حصول میں دنیا کے بنائے ہوئے اصولوں کو چیلنج کرنے کا نام۔

پاکستان کے ایٹمی سفر کو سمجھنے کے لیے ہمیں ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ دکھ اور شکست سے آغاز کرنا ہوگا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کا سانحہ صرف سیاسی شکست نہ تھا، بلکہ قومی وجود کو چیر دینے والا زخم تھا۔ اقوامِ متحدہ کی تقاریر، امن کے معاہدے، یا سفارتی مسکراہٹیں اس دن کوئی مدد نہ کر سکیں۔ اس حادثے نے پاکستان کے رہنماؤں کو یہ سبق سکھا دیا کہ اگر بقا مقصود ہے تو اپنی طاقت خود بنانی ہوگی۔

اسی پس منظر میں، وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں ملتان میں سائنس دانوں کے ساتھ ایک خفیہ اجلاس میں واضح کیا: پاکستان کو ایٹم بم بنانا ہوگا۔ اگر گھاس کھانی پڑے، بھوکا رہنا پڑے، تب بھی۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہ تھا بلکہ قومی عزم کی قسم تھی۔ مگر اس وقت پاکستان کے پاس نہ صنعت تھی، نہ وسائل، نہ ہی عالمی تعاون۔ خاص طور پر بھارت کی خفیہ جوہری سرگرمیوں کے انکشاف کے بعد مغرب نے پاکستان کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے۔

18 مئی 1974 کو بھارت نے “سمائلنگ بدھا” کے نام سے پہلا جوہری تجربہ کیا — ایک ایسا دھماکہ جو کینیڈا اور امریکہ سے حاصل شدہ “پرامن” ٹیکنالوجی سے تیار کیا گیا تھا۔ مغربی دنیا نے رسمی طور پر تشویش کا اظہار کیا، لیکن درپردہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان کے لیے یہ پیغام واضح تھا: طاقت ان کے پاس ہے جو چھین کر لیتے ہیں، نہ کہ وہ جو اجازت مانگتے ہیں۔

اسی لمحے بھٹو نے پروجیکٹ-706 کی بنیاد رکھی، جو پاکستان کا خفیہ ایٹمی پروگرام تھا۔ مگر رکاوٹیں بے شمار تھیں — نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا قیام، برآمدی پابندیاں، اور ساز و سامان کی بندش۔ مگر اسلام آباد میں ایک سرد مگر پرعزم سوچ نے جنم لیا: زندہ رہنے کے لیے ان اصولوں کو توڑنا ہوگا جو دوسروں نے بنائے ہیں۔

یہی وہ وقت تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان منظر پر آئے — ایک محب وطن مہاجر، جنہوں نے مغرب کی منافقت کو قریب سے دیکھا تھا۔ 1975 میں وہ نیدرلینڈز سے واپس آئے، اپنے ساتھ سنٹری فیوج ڈیزائن اور پاکستان کی آزادی کا خواب لے کر۔ کہوٹہ میں لیبارٹری قائم ہوئی، جہاں یورینیم افزودہ کرنے کا عمل شروع ہوا۔ مگر یہ خواب صرف خاکے سے حقیقت نہیں بنتے۔ پاکستان کو ہر وہ پرزہ دنیا بھر سے خفیہ نیٹ ورکس کے ذریعے حاصل کرنا پڑا۔ دبئی، جرمنی، مشرقِ وسطیٰ — ہر جگہ ایک خفیہ معیشت پروان چڑھی، جس کا مقصد تھا: بقا۔

چین، جو خاموشی سے جنوبی ایشیا میں توازن چاہتا تھا، نے پاکستان کو محدود مگر اہم تعاون فراہم کیا — بم ڈیزائن، افزودہ یورینیم، اور تکنیکی رہنمائی۔ کوئی رسمی اعلان نہیں، مگر چین کی درپردہ حمایت نے پاکستان کو سانس لینے کی گنجائش دی۔

1980 کی دہائی میں “کولڈ ٹیسٹ” کے ذریعے پاکستان نے اپنے جوہری ڈیزائن کو آزمایا، مگر کبھی کھلے عام تجربہ نہ کیا۔ اسٹریٹجک ابہام پاکستان کا ہتھیار بنا — نہ تصدیق، نہ انکار۔ لیکن سب کچھ بدل گیا مئی 1998 میں، جب بھارت نے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔

عالمی ردِ عمل کمزور رہا۔ بیان جاری ہوئے، ہلکی پھلکی پابندیاں لگیں، اور دنیا پھر معمول پر آ گئی۔ پاکستان میں عوامی دباؤ، عسکری دباؤ اور سائنسی حلقے سب ایک جواب کا مطالبہ کرنے لگے۔

وزیرِ اعظم نواز شریف کے سامنے ایک نازک فیصلہ تھا۔ صدر بل کلنٹن نے آخری کوشش کی — اربوں کی امداد، قرض معافی، اور عالمی احترام کی پیشکش۔ مگر نواز شریف نے جان لیا تھا کہ یہ سودا طاقت کے بدلے غلامی کا ہے۔

28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑ لرز اٹھے۔ پاکستان نے پانچ جوہری دھماکے کیے، اور دو دن بعد چھٹا۔ دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ مغربی دارالحکومتوں میں سناٹا چھا گیا۔ طاقت کی دنیا میں پاکستان نے اپنا مقام حاصل کر لیا — تقریروں سے نہیں، بلکہ آہن و آگ سے۔

پابندیاں لگیں، امداد روکی گئی، مگر چند ہی مہینوں میں وہی عالمی طاقتیں واپس آگئیں — مذاکرات کرنے، تعلقات بحال کرنے، نئی حقیقت تسلیم کرنے۔ پاکستان کی جوہری حیثیت اب ناقابلِ واپسی تھی۔

آج 28 مئی کو یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ صرف سائنسی کامیابی کا دن نہیں، بلکہ ایک قوم کے ناقابلِ تسخیر عزم کی یاد ہے۔ وہ دن جب پاکستان نے دنیا کو کہہ دیا: ہم موجود ہیں، اور کوئی ہمیں مٹا نہیں سکتا۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

خبریں

The latest stories from The Thursday Times, straight to your inbox.

Thursday PULSE™

More from The Thursday Times

error: