سب سے پہلے ھم اُنیس سو بیانوے میں جھانکتے ہیں کرکٹ ورلڈکپ میں صرف آٹھ ٹیمیں حصہ لے رھی تھیں ،پاکستان نے فائنل جاوید میانداد ،وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی شاندار کارکردگی کی بدولت جیت لیا لیکن ٹرافی عمران خان نے خلاف روایت اپنے پلیئرز کی تعریف کئے بغیر اُٹھائی کیونکہ کپتان وہ تھا تا ھم یہ ٹرافی کلائیولائیڈ اپنے ملک ویسٹ انڈیز اور رکی پونٹنگ اپنے ملک آسڑیلیا کے لئے بحیثیت کپتان دو دو بار اُٹھا چکے ہیں۔
اُنیس سو تریاسی کا ورلڈ کپ بھارتی کپتان کپل دیو اس حالت میں جیت چکا تھا جب پوری بھارتی ٹیم پسپا ہو چکی تھی لیکن کپل دیو نے تن تنھا مخالف ٹیم کے پرخچے اُڑا کر رکھ دئیے تھے۔
ایلن بارڈر ،رانا ٹونگا ،دھونی ، سٹیو وا ،اور مائیکل کلارک بھی بحیثیت کپتان کرکٹ ورلڈ کپ جیت چکے ہیں ،لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جیت کو سیاسی سٹنٹ نہیں بنایا نہ اس کا کوئی سیاسی یا سماجی فائدہ اُٹھایا کیونکہ یہ لوگ نہ صرف اچھے سپورٹس مین تھے بلکہ سپورٹس مین سپرٹ سے آگاہ بھی تھے جبکہ دوسری طرف عمران خان اس کامیابی کو دھرنوں ،جلاؤگھیراؤ ،مارو پیٹو تک بھی لے کر آئے۔
!اب آتے ہیں شوکت خانم ھسپتال کی طرف
یہ یقینًا عمران خان کا ایک بڑا کارنامہ ہے لیکن کیا یہ کارنامہ اس نے اکیلے سرانجام دیا؟
پشاور کا ایک معذور نوجوان مجھے بتا رہا تھا کہ جب میں پانچویں کلاس میں تھا تو میں سارا دن سکول میں بھوکا پیاسا رہتا کیونکہ ڈیڑھ مہینے تک گھر سے ملنے والا پاکٹ منی میں شوکت خانم ھسپتال کو چندہ دینے کے لئے بچا رہا تھا اور جس دن عمران خان نے ہمارے سکول کا وزٹ کیا تو میں نے وہ سارے پیسے اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے ۔ اس ھسپتال کے لئے زمین پنجاب حکومت اور پیسے عوام نے دئیے لیکن اپنے علاوہ کسی اور کا نام لینا تو درکنار شکریہ تک ادا نہیں کیا گیا ، گویا جاوید میانداد ،وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی تاریخ یہاں بھی دہرائی گئی۔
اب آتے ہیں اُنیس سو چھیانوے میں .
عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی لیکن یہ یوسفِ بے کارواں اکیلا ہی پھرتا رہا یہاں تک کہ چھ سال بعد دو ھزار دو میں اس کے ہاتھ بمشکل قومی اسمبلی کی ایک سیٹ ہاتھ آئی۔
پاکستان کا سیاسی مزاج یہ ہے کہ کوئی پارٹی اپنے قیام کے ساتھ ہی عوامی مقبولیت حاصل نہ کرے تو سمجھ لینا کہ ناکامی ہی مقدر ہے (پیپلز پارٹی ،نون لیگ ، اس حوالے سے کامیابی جبکہ مصطفٰے جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور فاروق لغاری کی ملت پارٹی ناکامی کے حوالے سے بڑی مثالیں ہیں ) لیکن اپنے قیام کے سولہ سال بعد اکتوبر دو ھزار گیارہ کے ایک جلسے نے اچانک گلی گلی “انقلابی “ پیدا کئیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سولہ سال سے صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف بھی موجود تھی اور اس کا ڈٹ گیا کپتان بھی پھر یہ “انقلابی کارکن “ کس غنودگی میں چلے گئے تھے جو تیس اکتوبر دو ھزار گیارہ کی رات اچانک نمودار ہو گئے ،لیکن چلو یہ سوال تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں موجودہ منظرنامے کی طرف ! ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ عمران خان کو بعض قوتوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اس کے ذریعے طاقتور سیاسی اور جمہوری قوتوں کو پیچے دھکیل دیا لیکن جب ھم معاملات کا باریک بینی کے ساتھ غیر جذباتی انداز میں جائزہ لیتے ہیں تو چونک جاتے ہیں کیونکہ معاملہ عمومی تاثر کے برعکس ھے یعنی عمران خان استعمال نہیں ہوا بلکہ اس نے خود دوسروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
کیسے؟
دو ھزار تیرا کے الیکشن میں عمران خان کے بھاری بھر کم اور طوفان جلسوں سے یہ تاثر لیا جارہا تھا کہ وہ الیکشن جیت جائیگا اس لئے اس کے سر پرست سائیڈ لائن پر کھڑے صرف تماشا دیکھتے رہے۔
لیکن الیکشن کے نتائج آتے ہی سب حیران و پریشان تھے کیونکہ اٹک سے رحیم یار خان تک نواز شریف نے پورے پنجاب میں صفایا کر چکا تھا۔
اب عمران خان کو یہ بات سمجھ آنے لگی تھی کہ نواز شریف سے الیکشن جیتنا اس کے بس کی بات نہیں اس لئیے اس نے نئیے “راستوں “کا انتخاب کیا۔
ایک طرف اس نے اپنے کارکنوں اور عوام کو باور کرایا کہ میرے علاوہ باقی لیڈرز چور اور کرپٹ ہیں اس لئے جوں ھی میں اقتدار سنبھال لوں تو آپ لوگوں کی زندگی میں شاندار تبدیلی آ جا ئیگی اور سادہ لوح عوام بہت حد تک ان وعدوں سے بہل گئے.
دوسری طرف وزیراعظم اور مقتدر طبقے کو ایک دوسرے کے مقابل لانا تھا.
نواز شریف چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے روایتی حلیف رہے ہیں اور یہ دونوں( نواز شریف اوراسٹیبلشمنٹ) اختلافات کے باوجود بھی کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے کے لئے قابل قبول تھے ،مثلاً نواز شریف نے فوجی سربراہ جھانگیر کرامت کو برطرف کیا تھا لیکن فوج نے برداشت بھی کیا تھا اور مان بھی لیا تھا اسی طرح مشرف کے ہاتھوں نواز شریف حکومت کا خاتمہ اٹک جیل اور جلا وطنی بھی نواز شریف کو پوائینٹ آف نو ریٹرن پرکھبی بھی نہیں لے کر گئی بلکہ اس نے اپنی سیاسی گولہ باری ھمیشہ پرویز مشرف کی ذات تک محدود رکھی تھی۔
لیکن وہ ھمیشہ اسے مشرف صاب کہہ کر پکارتے رھے
دو ھزار تیرا کا الیکشن جیتنے کے صرف دو دن بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی متوقع وزیراعظم کو مبارک باد اور بریفنگ دینے رائے ونڈ بھی گئے اور ایک خوشگوار ملاقات بھی ہوئی اب چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم ھاؤس اور پنڈی کے درمیان اعتماد بڑھتا اور معاملات اثبات کی طرف چل پڑتے لیکن عمران خان سیاسی ٹمپریچر انتھائی غیر فطری انداز سے بڑھا کر منتخب وزیر اعظم کا امیج درھم برھم کرنے لگے بد قسمتی سے عمران خان کو تھپکی بھی ملنے لگی اس تھپکی کو عمران خان نے بہت مہارت کے ساتھ اپنے “منصوبے” کے لئے استعمال کیا۔
اور پھر وہ وقت آیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف جنھوں نے اختلاف کے دراڑ کو انتھائی مشکل حالات میں بھی حد سے بڑھنے نہیں دیا تھا (حتٰی کہ آرمی چیف کی برطرفی اٹک جیل اور جلاوطنی جیسے پر آشوب حالات میں بھی )
لیکن عمران خان کی “مھارت “ اور “چابکدستی “ کی داد دیجئے کہ ایک طرف خادم رضوی کا شرمناک دھرنا جوتے اور سیاہی پھنکنے تک ،واقعات ہونے لگے تو دوسری طرف نواز شریف ایک خوفناک بیانیہ لے کر سڑکوں پر نمودار ہوئے اور پھر آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھے کہ پنجاب جیسے صوبے میں بھی وہ نعرے لگنے لگے جو وزیرستان میں لگتے رہے ،لیکن اھم سوال یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں نقصان کس کا ہوا اور فائدہ کس نے اُٹھایا۔
نقصانات کی فہرست تو طویل بھی ہے اور خوفناک بھی لیکن فائدہ صرف ایک شخص نے اُٹھایا اور اس کا نام عمران خان ہے جو وزیراعظم ھاؤس میں بیٹھا اور بیٹھتے ہی ایسٹبلشمنٹ کے “خاص بندوں ” کی ایسی کی تیسی کردی اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس ٹارگٹ کے ذریعے وہ کس کو اور کیا پیغام دے رھا ھے ،لیکن کیا کریں کہ اب بھی بعض لوگ بضد ہیں کہ عمران خان بہت سادہ آدمی ھے اتنا سادہ کہ اس کی قمیض میں دو دو موریاں ہوتی ہیں۔
Disclaimer: The views and opinions expressed in this article are those of the authors and do not necessarily reflect the official policy or position of the newspaper.