ایک انگریز مفکر نے کہیں لکھا تھا کہ میرا خلوص مجھے وہاں بھی بچا لیتا ہے جہاں میری عقل بے بس نظر آتی ہے ،سو ہم جیسے لکھنے والوں کے ساتھ یہی واقعات ہوتے ہیں اور بارہا ہوتے ہیں ۔ حیرت اس بات پر نہیں ہوتی کہ کھبی کھبی ہم “ریڈ لائنز” کے اس پار چلے جاتے ہیں بلکہ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ ان حالات میں ہم زندہ سلامت بھی رہ جاتے ہیں وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں آزادی اظہار کا تقاضا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے اور جہاں گلی گلی بندوق عدالت لگاتی اور فیصلے سناتی پھرتی ہے لیکن ان عوامل سے الگ یہاں ہر شخص نے بھی اپنی اپنی ریڈ لائن کھینچی ھے اور وہ آپ کی تحریروں میں اپنی خواہش کا عکس دیکھنے کا متمنّی ہوتا ہےلیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو توپھر الزامات بہتان طرازی اور نایاب گالیوں کی بوچھاڑ سے آپ کا واسطہ دیر تک پڑا رہے گا۔
یہ بھول دیا جاتا ہے کہ اسی صاحب تحریر نے پہلے کیا لکھا ہے. اس خیال اور سوچ کو بھی ذھن سے جھٹک دیا جاتا ہے کہ ہمارے وہ سیاسی دشمن جن کے بارے میں ھم کوئی کلمہ خیر سننا بھی گوارا نہیں کرتے انھیں بھی تو ان کی غلطیوں پر ادھیڑ کر رکھ دیا تھا ۔ یہاں سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ میری سوچ یا با الفاظ دیگر میرے لیڈر کے خلاف کیوں لکھا۔
کبھی آپ کسی ادارے کو کسی غلطی پر ٹوک دیں تو لشکر جھلاء اپنے اپنے ہاتھوں میں دشمن کے ایجنٹ اور غداری کے سرٹیفیکیٹس لئے آپ کے منہ پرمارنے کو دوڑتے ہیں لیکن اگر اس ادارے کے کسی کام کی تعریف کریں تواین جی او مارکہ غول سے کاروان جمہوریت کے پروانوں تک آپ کوخوشامدی اور،آمرانہ قوتوں کا ٹاؤٹ کہتے ہوئے ذرا بھی نہیں چوکتے۔
اور پھر چشم بددو عمران خان نے تو اپنے پیروکاروں کی اپنی افتاد طبع کے مطابق وہ تربیت کی ہے کہ ادھر آپ نے اختلاف کیا اور ادھر گالیوں اور بہتان طرازیوں کے سیلاب بلاخیز کے بند کا دھانہ ٹوٹ گیا جس میں سے ایسے ایسے القابات اور خطابات برآمد ہوتے ہیں کہ معنی و مفہوم بھی بھاگنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں لیکن دوسری جماعتوں سے وابستہ کارکنوں کی “کارکردگی” بھی اس حوالے سے کوئی زیادہ “بری “ نہیں خصوصًا پی ٹی ایم کے حمایتی اور کارکن اپنی سیاسی نوزائیدگی کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
کچھ عرصہ پہلے اس جماعت سے وابستہ ممبر قومی اسمبلی کے ایک متنازعہ بیان پر میں نے ایک کالم میں رد عمل کیا دکھایا کہ میں چند گھنٹوں کے اندر اندر کرپٹ لفافہ اور ایجنٹ سمیت پتہ نہیں کیا کیا ٹھرا ۔سو بر سبیل تذکرہ یہ بھی پوچھوں کہ یہی “لفافہ” اور یہی “ایجنٹ” کن موسموں اور کن حالات میں بہت دیر تک اپنے صحافتی محاذ پر آپ کے لئیے لڑتا رہا ? کبھی ریکارڈ تو چیک کرلیں کہ آپ کی جماعت کے بیانئیے سے جزوی اختلاف کے باوجود بھی اس کی مظلومیت کی حمایت میں ڈٹ کر لکھا یا مجرمانہ خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیاتھا؟
جان کی امان پاؤں تو پوچھوں کہ اگر لکھا تھا تو آپ نے کتنے لفافے دئیے تھے اور تب ہم کس کے ایجنٹ تھے؟لیکن چلیں یہ معاملات خدا کی انصاف پر چھوڑتے ھوئے آگے بڑھتے ہیں۔
پرنٹ میڈیا میں کالم نگار اور قارئین کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ اور ناشناسا ئی رہتی لیکن سوشل میڈیا نے ان تکلفات کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔
اب لکھاری فوری طور پر اپنے قارئین کا رد عمل جانچ لیتا ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں حوالے موجود ہیں اور یہاں مختلف الخیال لوگوں سے واسطہ بھی پڑتا ہے تا ہم یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ ہر وقت نشانے پرہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات توقع سے کہیں زیادہ محبت بھی ملنے لگتی ہے۔ ساتھ ساتھ اپنی ریٹنگ کی بلندی بھی ایک لکھاری اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور مسرور ہوتا رھتا ھے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی لکھاریوں کو درپیش مسائل کی جس میں ایک یہ بھی ہے کہ بڑے اخبارات اور میڈیا ہاؤسز پر ایک “قبضہ مافیا’ چھایا ہوا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگیں مارتے اور لاکھوں کمانے کاکھیل کھیلتے رھتے ہیں اور اس سلسلے میں میں انہیں ایک “نادیدہ آشیر باد “بھی حاصل ہوتا ھے. ظاھر ھے ترجیح صحافت نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہے سو ان حالات میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کا یہی حال ہوگا جواس وقت ہو رہا ہے ، حیرت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کے ویب سائیٹس پر ایسے ایسے لکھنے والے سامنے آئے ہیں جن کا اسلوب تجزیہ سٹائل اور مطالعہ کمال کا ہے اور ان کا ایک ایک جملہ قارئین کو چونکا دیتا ہے لیکن میڈیا ھاؤسز اور اخبارات میں داداگیری کا عنصر کم ہو تو ان کو موقع ملے نا۔
اس لئے گزارش ہے کہ میڈیا ھاؤسز بدلتے ہوئے زمانےاور اُبھرتے ہوئے لکھاریوں کو نظر انداز کرنے کی روش سے اب اجتناب کرے تو بہتر ہے کیونکہ سالھا سال سے مخصوص تحریروں اور بے سروپا تجزیوں نے قارئین اور ناظرین کو بہت حد تک تھکا دیا ہے بلکہ اب لطف پر بوریت کا غلبہ آنے لگا ہے۔
اخبارات کی سرکولیشن اور ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ گرنے اور سوشل میڈیا کی طرف لوگوں کی رغبت کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے سو لازم ہے کہ میڈیا ھاؤسز ان انڈی کیشنز کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھے بھی اور اس کے لئے ایک نیا لائحہ عمل اور مربوط پالیسی بھی وضع کرے بلکہ یہ معیار بنایا جائے کہ کسی چینل کے سکرین یا اخبار کے ادارتی صحفے پر تگڑی سفارش کی بجائے کام اور کارکردگی یعنی معیاری تحریروں کو پیمانہ بنایا جائے اس عمل سے با صلا حیت اور محنتی نوجوان لکھاریوں کو مواقع ملنے لگیں گے اور ریگولر میڈیا برق رفتار مارکیٹ میں مقابلے کی پوزیشن پر بھی آجائے گا۔
ورنہ سوشل میڈیا جدید تیکنیک سے لیس اور بدلتے ہوئے زمانے سے ہم آہنگ بھی ہے اسی لئے تو وہ قبضہ گروپ صحافیوں کے نرغے میں آئے اور جمود کے شکار الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ایسے تو پیچھے نہیں دھکیل رہا ہے۔
اس لئے اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو یہ بات ذھن نشین ھونی چاھئے کہ اخبارات اشتھارات اور نیوز چینلز ،ڈراموں اور انٹرٹینمنٹ تک محدود ہونے میں کتنی دیر لگے گی۔
The views expressed above are the writer’s own and are not those of The Thursday Times.
صرف صحافت کا ہی نہیں ہر طرف آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے. پاکستان کے تمام آئینی ادارے کمزور ہوچکے ہیں.وزیراعظم اپوزیشن راہنماؤں کو ڈاکو جیسے القاب سے پکارتا ہے. اس کے نزدیک مراد سعید, فردوس عاشق اعوان اور شہبازگل جہاد میں مصروف ہیں. آپ صحافت کا رونا رو رہے ہیں. یہاں ہر شخص دکھی ہے. نوجوانوں پر ملازمت کے دروازے بند کردئے گئے ہیں. ایسے لگتا ہے کہ پاکستان میں فرنگی کا دور ہے. عوام کا کوئ پرسان حال نہیں ہے. بزرگ بازوروں میں کسی اینکر سے بات کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں. اب اراکین اسمبلی کو پچاس کروڑ ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت دی جارہی ہے. اس رقم کے حصول کے لئے بجلی اور پٹرولیم کی قیمتیں بڑھائ جارہی ہیں. نیازی ایک ظالم اور جابر شخص ہے.