بہتان طرازی اور ڈرامہ بازی میں یکتا ایک بدزبان اینکر کو اسمبلی میں پہنچا کر خدمات کا صلہ دیا گیا۔ سرعام ٹاک شو میں پیسے مانگنے والا دوسرا اینکر جہازوں کا مالک بن بیٹھا۔ابھی ابھی صحافت میں گھسنے والے ایک گیلے تیتر اینکر کا والد ایک یوٹیوبر کو وہ لگژری گاڑی دکھا رہا تھا جس میں کچن باتھ روم اور سیٹنگ لاؤنج تک موجود تھے ، ان کا عظیم الشان محل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
جمہوریت کو زھر قاتل اور سیاست کو خباثت کہنے والے خود ساختہ دانشور کے برانڈڈ کپڑے ، گھڑیاں اور جوتے تو الگ وہ محل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کی رہداریوں میں لگے پودوں نایاب پینٹنگز اور سجے فرنیچر کی قیمتیں بھی ایک صحافی کی عمر بھر کی کمائی سے زیادہ ہیں۔
سیاستدانوں کا تمسخر اُڑانے کے لئے مشہور ایک اور اینکر کے فارم ھاؤسز اور اس میں کھڑی لگژری گاڑیاں کس نے نہیں دیکھیں
!لیکن
دوسری طرف بھی دیکھیں یہ کمال کے صحافی احمد نورانی ہیں۔ اور یہ عمر چیمہ ہیں دونوں نوجوان صحافی ہیں اپنے قلم سے اُگلتے قابل داد پیشہ ورانہ سچ اور اپنے جسموں پر سہتے زخموں کے علاوہ دکھائیں بھی تو کیا؟ کون سا فارم ھاوس اور کہاں کا لگژری لائف سٹائل؟
یہ مطیع اللہ جان ہیں اپنا مائیک اُٹھائے سارا سارا دن عدالتی راہداریوں میں بھاگتے اور انصاف کو اپنے ہی پاؤں پر کھڑا ہونے کی تبلیغ اور جدوجہد کرتے ہیں لیکن اپنے والد سے ورثے میں ملے ہوئے پرانے گھر کی اُکھڑی ہوئی پلستر اور پھٹے ہوئے صوفوں اور پردوں تک کو تبدیل کرنے کی سکت نہیں۔
اچانک ،”غائب” ہو جاتے ہیں تو رزق حلال کماتی اور اپنے میاں کا بوجھ کم کرتی اھلیہ اپنے کم عمر بیٹے کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر بھاگتی ایک سناٹے سے اپنے گمشدہ شوہر کا جرم پوچھتی پھرتی ہے
یہ عمار مسعود اور شنیلہ عمار ہیں دونوں صحافی میاں بیوی مسلسل محنت کر کے اور اپنا خون خشک کرکے چھوٹا سا گھر بناتے ہیں اور بچے کھچے پیسوں سے گھر کے لئے عام سی چیزیں خریدنے پشاور آتے ہیں تو بھاؤ تاؤ اور مشورے میں سارا دن ہمیں بھی تھکا دیتے ہیں۔
یہ اسد علی طور ہیں کمال دلیری کے ساتھ سچ بولتے ہیں اور سارا دن اس گروہ سے ماں بہن کی گالیاں سنتے ہیں جن کی پہچان “پنج نسلی لڑاکو “ کے نام سے ہوئی ہے۔
رضی دادا سے سیّد عمران شفقت اور ثناء بچہ سے عاصمہ شیرازی تک سب کی کہانی بھی یہی ہے اور مشترکہ دکھ بھی یہی! لیکن پیشہ ورانہ دیانت پر کوئی حرف بھی نہیں آنے دیتے
مرے وطن ترے دامان تار تار کی خیر
اب ذرا اس سمت میں دیکھیں یہ ثاقب نثار ہیں جو اس بد نصیب وطن میں عدل و انصاف کی سب سے اُونچی مسند پر بیٹھا رہا تو کسی منصف کی بجائے طاقتور طبقے کے لئے ایک اُجرتی کا کردار ادا کرتا رہا جرم اور بے گناہی کی بجائے اس کے پیش نظر ہمیشہ یہی رہا کہ سامنے کھڑا ملزم راندہ درگاہ قبیلے سے ہے یا ان دروبام سے جڑا ہے جہاں سے وہ اپنے بد نام زمانہ فیصلوں کے لئے اشارہ آبرو پاتا اور اس وطن کی بد نصیبی میں مزید اضافہ کرتا۔
اسی ثاقب نثار کے رفقاء جسٹس جاوید اقبال اور جسٹس عظمت سعید جیسے لوگ تھے جو اپنے اپنے “کردار” کا انعام پاتے ہوئے احتساب یا براڈ شیٹ کے ان پلڑوں سے لٹک کر جھول رہے ہیں جو کسی جرم یا گناہ سے بھاری نہیں پڑ رہے ہیں .لیکن جب دوسری سمت میں دیکھیں تو یہ حد درجہ ایماندار اور دلیر جسٹس فائز عیسٰی ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ سارا سارا دن عدالتی کٹہروں میں گزارتے اور تاریخ سے لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
اور یہ اس کے رفقاء ہیں جسٹس وقار احمد سیٹھ (مرحوم) اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی جو ڈٹ کر کھڑے بھی ہوئے اور دست ستم کو جھٹک بھی دیا۔
انجام جو بھی ہوا لیکن سرخروئی اور احترام کا ایک اُمڈتا ہوا دریا بھی تو ہنے۔
کل کے مؤرخ کی بات کل پر چھوڑیں آج ہی دیکھ لیں کہ نفرت اور حماقت سے لبریز اہمیت کھوتے ایک گروہ کے علاوہ عام آدمی ثاقب نثار ،جاوید اقبال اور عظمت سعید جیسوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور فائز عیسٰی ،وقار احمد سیٹھ (مرحوم) اور شوکت عزیز صدیقی جیسے ججوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔
سیاست پر نگاہ کریں تو ایک طرف فیصل واوڈا جیسے لوگ ہیں جو ایک ٹیلی وژن ٹاک شو میں فوجی بوٹ بھی سامنے رکھنے سے گریز نہیں کرتا۔
یہی رویہ ایسے (سیاستدانوں؟)کو بھی اوّل الذکر صحافیوں ،اینکروں اور ججوں کی مانند “ صلہ “ فراہم کرتا ہے اور پھر نہ ہی فیصل واوڈا کے لندن جائدادوں کا حساب مانگا جاتا ہے نہ ہی جاویداقبال کی “فیس نہیں کیس” کا فلسفہ عملی صورت اختیار کرتا ہے اور نہ ہی دوہری شہریت جرم بن جاتی ہے بلکہ موصوف ایک سہولت کے ساتھ پارلیمان کے ایک ایوان سے دوسرے ایوان میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
رزاق داؤد ،خسرو بختیار ،عامر کیانی اور ندیم بابر جیسے لوگ آٹا ،چینی ، گھی ‘دوائی ، اور بجلی کے بم عوام پر گرا کر اپنی دولت میں چند ارب کا اضافہ کر بھی لیں تو سلوک وہی ہوگا جو “پاپا جونز “کا مسلک اور روایت ہے کیونکہ یہاں احتساب جیل اور سزا جرم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس سرکشی کی بنیاد پر مقدر بنتی ہے جو سرکشی شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی ، سعد رفیق اور خواجہ آصف جیسے کارکردگی دکھانے والوں سے سرزد ہوئی اور “مجرم” ٹھرے۔
صرف اسی پر ہی کیا موقوف !
پیپلز پارٹی کے اندر جھانک کر دیکھیں تو اعتزاز احسن اور رحمٰن ملک بھی اس خیمے میں پناہ لئے ہوئے ہیں جس خیمے کی تھوڑی بہت شان اور اعتبار رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے قد آوروں سے قائم ہے۔
گویا بحیثیت مجموعی پاکستان اس وقت مستقبل کے حوالے سے ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے جس میں ایک طرف بدلتے زمانے کے تقاضوں سے بے خبر ایسٹبلشمنٹ قانونی سیاسی اور صحافتی دنیا میں اُتارے گئے ان چوبداروں پر تکیہ کئے ہوئے ہیں جن کا اصل مقصد بلکہ واردات موجودہ حالات کے پیش نظر دیہاڑی لگانا ہی ہےلیکن وہ کمال مکاری کے ساتھ اپنے آقاوں کو یہ یقین بھی دلاتے چلے جارہے ہیں کہ ہم آپ کو کھیل جتوا کر دیں گے اور المیہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کو پرکھے بغیر ایسٹیبلشمنٹ ایک سادگی یا حماقت کے ساتھ ان کی بات کا یقین بھی کر لیتی ہے، تبھی تو یہ سلسلہ رکتا نہیں اور چوبداروں کی چاندی ہو گئی ہے۔
لیکن دوسری طرف کا سلسلہ ذاتی مفادات سے دور ضمیر کی آواز سے جڑا ہے۔
!گویا رضاکارانہ جدوجہد
اور یہی وجہ ہے کہ اس طبقے ( سیاست دان ،ججز ، صحافی ) کو عوامی سطح پر اعتبار اور قبولیت کے ساتھ ساتھ توجہ اور احترام بھی ملنے لگا ہے جس کی وجہ سے روایتی منظرنامہ انتہائی مشکلات کے باوجود بھی تیزی کے ساتھ ایک بنیادی اور مکمل تبدیلی کی جانب گامزن ہے،
کیونکہ ڈیجیٹل ارتقاء اور سوشل میڈیا کے اس برق رفتار دور میں جھوٹ اور مکاری کے ذریعے لوگوں کو کتنی دیر تک سچ اور حقائق سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
اور اب تو یہ سب کچھ آپ کے سامنے ھی ہے۔