عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا کہہ دیا ہے، جوڈیشل کمیشن کا اعلان نہ ہونے کی صورت میں مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے، تحریکِ انصاف کو کسی بیرونی مدد کا انتظار نہیں ہے، عمران خان اپنا مقدمہ پاکستانی عدالتوں میں ہی لڑیں گے۔
اقلیتیں میرے سر کا تاج ہیں اور اتنی ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم سب ہیں۔ اقلیتوں کا تحفظ میری ذمہ داری اور میرا فرض ہے۔ اقلیتوں کے خلاف کوئی سازش کرے گا تو اس کا پوری قوت سے راستہ روکوں گی۔ اقلیتوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ملک ریاض اور انکے بیٹے کے خلاف غیرقانونی ہاؤسنگ سکیمز، زمینوں پر ناجائز قبضوں، کرپشن اور فراڈ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ملک ریاض مفرور اشتہاری ہے، نیب ملک ریاض کو واپس لانے کیلئے اقدامات کر رہا ہے۔ کرپشن اور رشوت کا جواب دیں، مذہب کارڈ استعمال نہ کریں۔
غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے پاکستان سے جو بھی ہو سکا وہ کرے گا۔ گوادر ایئر پورٹ ترقی و خوشحالی میں سنگِ میل ہے، چین جیسے دوست کی قدر کرنی چاہیے۔ ہم شہداء کا قرض نہیں اتار سکتے، ان قربانیوں کی جتنی بھی تعظیم کی جائے کم ہے۔
ن لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین نے سینٹ کی ییومن رائٹس کمیٹی کی سربراہی چھوڑ کر ڈیفنس کمیٹی کی سربراہی لے لی ہے ایسا کیسے ہوگیا کس کے کہنے پر ہوا کس کی اجازت سے ہوا کس کو بتا کر ہوا اس کا جواب آنا چاہیے خصوصا اس وقت میں جب پاکستان میں ہیومن رائٹس کا ایشو بڑھتا جارہا ہے پاکستان میں میڈیا زیر عتاب ہے سوشل ایکٹیوسٹ زیرعتاب ہیں عوام زیر عتاب ہے اور اس اہم موقع پر حزب اختلاف کے ایک ممبر کیجانب سے چپکے سے ہیومن رائیٹس کمیٹی کی سربراہی چھوڑ کر اسکو حکومت کے حوالے کردینا ایک نہیں کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
حکومتی سینیٹر ولید اقبال کو سینٹ ہیومن رائیٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جنکا نام حیرت انگیز طور پر مشاہد حسین سید نے نامزد کیا جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ حزب اختلاف نے خود پلیٹ میں رکھ کر انسانی حقوق کی سربراہی حکومت کو سونپ دی ہے۔
اپوزیشن میں بیٹھی ن لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین سید کیا موجودہ حالات و واقعات سے اتنے نابلد ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ موجودہ تحریک انصاف حکومت کا ہیومن رائٹس سے متعلق ٹریک ریکارڈ کچھ اتنا اچھا نہیں کہ انہوں نے حکومت سے ہی تعلق رکھنے والے سینیڑ کا نام ہیومن رائیٹس کمیٹی کے سربراہ کیلئے تجویز کیا اور متفقہ طور پر انکو کامیاب بھی کروا دیا گیا۔ گذشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے اس بارے سوال ہوا تو انکا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم ایسا کیسے ہوا مشاہد حسین سید جماعت سے پوچھے بغیر کسی ایک کمیٹی کی سربراہی کو چھوڑ کر دوسری کمیٹی کی سربراہی نہیں لے سکتے۔
مشاہد حسین کا اچانک ہیومن رائیٹس کمیٹی سربراہی کو چھوڑنا اور ڈیفنس کمیٹی کی سربراہی کیلئے منتخب ہونا انکی جماعت مسلم لیگ ن کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے ایک بہت بڑا سوال ہے جسکا جواب بہرحال مسلم لیگ ن کو دینا پڑیگا کہ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہوا۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہمارے ہاں روز کا معمول ہیں، اسکی سینٹ کمیٹی نشانہ بننے والوں کو تحفظ اور انصاف مہیا کرانے کا ایک ذریعہ ہے، افسوس ہے کہ مشاہد حسین سید نے اسکی سربراہی حکومت کو دے کر دفاع کی کمیٹی حاصل کر لی، اب متاثرین کی آہوں کے مجرم ہم بھی ہوں گے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورذیاں ہمارے ہاں روز کا معمول ہیں، اسکی سینٹ کمیٹی نشانہ بننے والوں کو تحفظ اور انصاف مہیا کرانے کا ایک ذریعہ ہے، افسوس ہے کہ مشاہد حسین سید نے اسکی سربراہی حکومت کو دے کر دفاع کی کمیٹی حاصل کر لی، اب متاثرین کی آہوں کے مجرم ہم بھی ہوں گے-
اگر تو مشاہد حسین سید نے اپنے طور پر ایسا کیا ہے تو اس پر ن لیگ انکے خلاف کیا ایکشن لے گی اور ایکشن لیا جانا نظر بھی آنا چاہیے اور اگر انہوں نے جماعت کی رضامندی سے ایسا کیا ہے تو پھر کیا بقول پرویز رشید ن لیگ متاثرین کے آہوں کی مجرم کہلانا پسند کریگی بہرحال سوال تو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ن لیگ کو ان سوالات کا جواب دینا چاہیے اور جلد از جلد اپنی پوزیشن کلئیر کرنا چاہیے کیونکہ اس سے جماعت کی ساکھ متاثر ہوگی۔
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔