spot_img

Columns

Columns

News

وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ’’نواز شریف کسان کارڈ‘‘ کی منظوری دیدی

وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب میں "نواز شریف کسان کارڈ" کی منظوری دے دی جس کے ذریعہ ایک سال میں 5 لاکھ چھوٹے کاشتکاروں کو آسان اقساط پر 150 ارب روپے کا قرضہ دیا جائے گا جبکہ اس میں مختلف اقسام کی سبسڈیز بھی فراہم کی جائیں گی۔

غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی ہونی چاہیے، وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار

غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی ہونی چاہیے، فلسطینی عوام 6 ماہ سے جنگ اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں، غزہ میں جنگ بندی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مطالبہ ہے، ہمیں غزہ کے مسلمانوں کو بھولنا نہیں چاہیے۔

مجھ پر پریشر آیا تو ہائی کورٹ کے ججز نے میرا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا، جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی

مجھ پر دباؤ آیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججز نے میرا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا جبکہ اس صورتحال کے بینفیشریز اطہر من اللّٰہ، عامر فاروق اور محسن اختر کیانی تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کی حدود میں نہیں آتا۔

سٹاک مارکیٹ میں نئی تاریخ رقم، 66 ہزار کی نفسیاتی حد عبور ہو گئی

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں نیا ریکارڈ قائم، آج 66 ہزار کی نفسیاتی حد بھی عبور ہو گئی، سٹاک ایکسچینج 66 ہزار 547 کی سطح پر پہنچ گیا، مجموعی طور پر ہنڈرڈ انڈیکس میں 641 پوائنٹس کا اضافہ ہوا، انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں بھی کمی

مجھے معلوم تھا کہ میاں نواز شریف وزارتِ عظمٰی نہیں لیں گے، سینیٹر عرفان صدیقی

مجھے معلوم تھا نواز شریف وزارتِ عظمٰی نہیں لیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ حلقوں میں ان سے متعلق تحفظات موجود ہیں جو جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں، ممکن ہے کہ میاں صاحب مستقبل قریب میں جماعت کی قیادت خود سنبھال لیں گے۔
OpinionNationalصحافت کے احتساب کا وقت
spot_img

صحافت کے احتساب کا وقت

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

پینتیس سالہ سیاہ فام جینٹ لیسلی کک انیس سو اسی کے عشرے میں عالمی شہرت یافتہ اخبار واشنگٹن پوسٹ سے انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ کی حیثیت سے وابستہ تھی۔ چونکا دینے والی خبروں کی تلاش میں اسے بہت مہارت حاصل تھی۔ جینٹ لیسلی کک کے قارئین بے چینی کے ساتھ اس کی سٹوری کے منتظر رہتے اور وہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی کہانی سامنے لے آتی۔ انھی دنوں واشنگٹن پوسٹ میں “جمی ز ورلڈ” کے نام سے جینٹ لیسلی کک کی ایک سٹوری چھپی۔ جس میں اس نے آنڈریا واشنگٹن میں مقیم ایک آٹھ سالہ بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ ہیروئن کے نشے کا عادی ہے مزید بتایا کہ یہ بچہ (جمی) اپنی ماں اور اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتا ہے اور وہ دونوں خود بھی نشے کے عادی ہیں۔ جمی کو پانچ سال کی عمر میں اپنی ماں کے بوائے فرینڈ نے نشے پر لگایا تھا اور وہ گزشتہ تین سال سے نشے میں مبتلا ہے۔

اس سٹوری نے ایک طرف امریکہ کی سماجی اور اخلاقی زندگی کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری طرف جینٹ لیسلی کک بحیثیت صحافی راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچی لیکن کچھ دنوں بعد واشنگٹن پوسٹ میں پبلک انکوائری افسر بل گرین کو کچھ اطلاعات ملیں تو اس نے جینٹ کک کی سٹوری کے بارے میں انوسٹی گیشن شروع کی۔ چند دنوں بعد بل گرین نے اخبار انتظامیہ کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں اس سٹوری کو ثبوتوں کے ساتھ مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ثابت کیا تھا۔

اخبار انتظامیہ نے اسی دن جینٹ لیسلی کک کو نہ صرف برطرف کر دیا بلکہ اسے دیے گئے تمام ایوارڈز بھی منسوخ کر دیے اور پھر وہ دن اور آج کا دن جینٹ لیسلی کک صحافت کی دنیا میں کہیں دکھائی ہی نہ دی۔
یہ تمھید میں نے اس لئے باندھی کہ اُن ملکوں کی کامیابی اور ترقی کے اہم رازوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں صحافت سچائی، پروفیشنلزم اور شدید محنت کی بنیادوں پر کھڑی ہے جو معاشرے کو صحیح راستہ دکھانے موٹیویٹ کرنے اور خیر اور شر میں تمیز کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ جو جھوٹ، فریب، ظلم اور نا انصافی کو اُکھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ عوام کی ذھنی تربیت بھی کرتی رہتی ھے جس سے ایک فلاحی اور مبنی بر انصاف معاشرے کا قیام وجود میں آتا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں متضاد اور منفی رخ میں سفر کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری صحافت رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی والی صورتحال سے دو چار ہے۔ کیونکہ ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری اور ذاتی مفادات نے نہ صرف اسے جکڑ رکھا ہے بلکہ اس سے اچھے نتائج کی بجائے مسلسل منفی پروپیگنڈہ اور مخصوص ایجنڈے ٹپک رہے ہیں جو کسی طور تعمیری صحافت کے زمرے میں نہیں آتا۔

آپ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی بھی چینل کھول دیں وھاں سالہا سال سے مخصوص چہرے “اینکر اور سینئر تجزیہ نگار کا سرکس” سجائے دکھائی دیں گے۔

معیار کم از کم یہ تو ہرگز نہیں کہ مطالعے مشاھدے اور طرز تحریر نے مواقع فراہم کیے بلکہ معیار یہی ٹھرا کہ “مالکان” کے ساتھ روابط اچھے رکھیں اور دیئے گئے ایجنڈے کے مطابق صبح و شام اول فول بکتے رہیں۔ اگر چہ عطاء الحق قاسمی سہیل وڑائچ اور جاوید چودھری جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو تصنیف و تالیف اور مطالعے کی بنیاد پر اس پیشے سے منسلک ہیں لیکن بد قسمتی سے عمومی طور پر ایسا نہیں بلکہ سچائی اور خبر کی بجائے اپنے اپنے ایجنڈے سمیت ہر کوئی ہمارے سر پر سوار ہے کیونکہ مرے ہوئے والد کا انگوٹھا لگانے سے فراڈ مقدمے میں جیل کاٹنے تک اور ٹی وی سکرین پر ملک کے سب سے بڑے نو سرباز رائل سٹیٹ ٹائیکون سے پیسے مانگنے سے روز روز جھوٹ ثابت ہونے تک کے باوجود بھی کسی کو جینٹ لیسلی کک نہیں بنایا جاتا۔

کسی تلخی کی طرف جانے کی بجائے وقت کے تیور اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئیے چند تجاویز کی طرف جانا ہی بہتر بات ہوگی۔

اس وقت ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہوتی ڈرامہ بازی کو نہ صرف عام لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ سب سے زیادہ تنگ بھی اسی سے آئے ہوئے ہیں (کسی کو اس بات میں شک ہو تو بے شک سروے کروا کر دیکھ لیں) دوسری بات یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ الیکٹرانک میڈیا کارکردگی کے حوالے سے بہت پیچھے رہا اور وقت کے تقاضوں (ایماندارانہ تفتیشی صحافت اور نئے آئیڈیاز کی تلاش) کے مطابق چلنے کی بجائے ایجنڈوں یا چند افراد کی مفادات کے گرد گھومنے لگا۔
ظاھر ہے کہ نیوز چینلز کو بند تو نہیں کیا جا سکتا اس لئے نئی قانون سازی ہی بہترین راستہ ہے جس کے تحت کسی بھی اینکر یا تجزیہ نگار کے لئے مہینے میں مخصوص وقت کا تعین کیا جائے یعنی سکرین پر آنے کے لئے اتنے منٹس یا گھنٹے ہوں گے جبکہ باقی وقت نوجوان صحافیوں کالم نگاروں دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو دیا جائے۔ بلکہ میں تو ذاتی طور پر اس بات کی حمایت کروں گا کہ دوسرے جابز اور اداروں کی مانند یہاں بھی سخت امتحان اور ٹسٹ کا طریقہ کار لاگو کیا جائے جو تجربے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور انداز تحریر سے بھی منسلک ہو۔ جس کا اھتمام وزارت اطلاعات اور میڈیا ہاؤسز مشترکہ طور پر کرے۔

اس فیصلے سے ایک طرف نئے لکھنے والوں اور گمنام صحافیوں کو مواقع بھی ملیں گے اور دوسری طرف نئے آئیڈیاز کو راستہ بھی ملتا جائے گا۔ ساتھ ساتھ ریسرچ طرز تحریر پروفیشنلزم اور محنت کو بھی معیار بنایا جائے اور اس کی مناسبت سے الیکٹرانک میڈیا پر وقت کی تقسیم کی جائے۔ اس اقدام کے ساتھ سوشل میڈیا بھی غل غپاڑہ سے نکل کر راہ راست پر آتا جائے گا کیونکہ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو سوشل میڈیا پر مچی ہوئی ہڑبونگ اصل میں الیکٹرانک میڈیا کا رد عمل ہی ہے کیونکہ عام آدمی کے پاس جھوٹ اور بہتان طرازی کا جواب دینے کے لئے صرف یہی سوشل میڈیا کا فورم ہی تو ہے۔

جب الیکٹرانک میڈیا پر نئے لوگ جدید آئیڈیاز کے ساتھ آئیں گے تو عوامی سطح پر اس کا اثر بھی حد درجہ مثبت اور تعمیری ہوگا۔

ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ گمنامی اور ناپرسانی کے اندھیروں میں پڑے کئی بہترین صحافی کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن گمنامی اور بے روزگاری انہیں چاٹ رہی ہے۔ لیکن بات پھر وہی کہ پارلیمان سے اداروں اور وزیراعظم سے چپڑاسی تک رگیدنے والے سکرینوں کے ڈیڑھ درجن ٹھیکیدار راستہ چھوڑیں تو تبھی لوگ تازہ ہواؤں اور اُمڈتی ہوئی روشنی کا لطف اُٹھا سکیں۔
وزیراعظم عمران خان خود بھی کئی بار اس حوالے سے پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ انہیں خود بھی صحافت کے حوالے سے بہت سی ان کہی کہانیوں کا علم ہے اس لئے مناسب وقت ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی طرف پیش رفت کی جائے اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو یقیناً عوام سمیت تمام طبقوں کی مضبوط تائید اور حمایت بھی حاصل ہوگی اور وہ آسانی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے۔

!کام کوئی اتنا مشکل بھی تو نہیں
قانون سازی کریں اور پیمرا کو موثر بنائیں نتائج حیران کن اور خوشگوار ہی نکلیں گے۔ البتہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور رعب داب ہاتھ سے نکلیں گے تو ڈیڑھ درجن افراد کی چیخیں آسمان سر پر اُٹھالے گی لیکن کیا فرق پڑتا ہے جب جینوئن لوگوں کو حق بھی ملے اور پورے ملک کے عوام سکھ کا سانس بھی لیں گے تو وزیراعظم عمران خان اور حکومت بلا شبہ مضبوط عوامی حمایت اور اخلاقی برتری کی پوزیشن میں ہوں گے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ شخصیت پرستی اور صحافت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ جب تک مکروہ پیشے کی فطرت رکھنے والے لوگ اس پیغمبرانہ پیشے یعنی صحافت پر حاوی رہیں گے تو ملک و قوم کے ساتھ وھی کچھ ہوتا رھے گا جو آج تک ہوتا رہا ھے۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: