صحافت کے احتساب کا وقت
اخبار انتظامیہ نے اسی دن جینٹ لیسلی کک کو نہ صرف برطرف کر دیا بلکہ اسے دیے گئے تمام ایوارڈز بھی منسوخ کر دیے اور پھر وہ دن اور آج کا دن جینٹ لیسلی کک صحافت کی دنیا میں کہیں دکھائی ہی نہ دی۔
اس وقت ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہوتی ڈرامہ بازی کو نہ صرف عام لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ سب سے زیادہ تنگ بھی اسی سے آئے ہوئے ہیں (کسی کو اس بات میں شک ہو تو بے شک سروے کروا کر دیکھ لیں) دوسری بات یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ الیکٹرانک میڈیا کارکردگی کے حوالے سے بہت پیچھے رہا اور وقت کے تقاضوں (ایماندارانہ تفتیشی صحافت اور نئے آئیڈیاز کی تلاش) کے مطابق چلنے کی بجائے ایجنڈوں یا چند افراد کی مفادات کے گرد گھومنے لگا۔
ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ گمنامی اور ناپرسانی کے اندھیروں میں پڑے کئی بہترین صحافی کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن گمنامی اور بے روزگاری انہیں چاٹ رہی ہے۔ لیکن بات پھر وہی کہ پارلیمان سے اداروں اور وزیراعظم سے چپڑاسی تک رگیدنے والے سکرینوں کے ڈیڑھ درجن ٹھیکیدار راستہ چھوڑیں تو تبھی لوگ تازہ ہواؤں اور اُمڈتی ہوئی روشنی کا لطف اُٹھا سکیں۔
!کام کوئی اتنا مشکل بھی تو نہیں
Subscribe
0 Comments