spot_img

Columns

Columns

News

تورطت المملكة العربية السعودية في مؤامرة للإطاحة بحكومة رئيس الوزراء السابق عمران خان، كما يزعم أحد المقربين من عمران خان

لقد أطاحت المملكة العربية السعودية بحكومة عمران خان، وكانت المملكة العربية السعودية والولايات المتحدة هما الدولتان اللتان اكتملت بدعمهما عملية تغيير النظام. كما أن الدعم الاقتصادي الذي تقدمه المملكة العربية السعودية لباكستان هو أيضًا جزء من نفس التخطيط، شير أفضل مروات۔

Pakistan grants 34 firms licenses to develop electric vehicles for its domestic market

Pakistan's Engineering Development Board has granted 34 licenses for electric vehicle manufacturing under its 2020-2025 policy, aiming to equip petrol stations with EV chargers and leverage global climate funds to promote clean transportation.

پاک فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا

پاک فوج نے سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر انکوائری کا آغاز کر دیا ہے، جنرل (ر) فیض حمید پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف دورانِ ملازمت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، شیر افضل مروت

عمران خان کی حکومت سعودی عرب نے گِرائی تھی، سعودی عرب اور امریکہ دو ممالک تھے جن کے تعاون سے رجیم چینج آپریشن مکمل ہوا، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے معاشی تعاون بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے۔راہنما تحریکِ انصاف شیر افضل مروت
OpinionNationalظلم کی حماقت ایک جیسی ہوتی ہے
spot_img

ظلم کی حماقت ایک جیسی ہوتی ہے

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

انسویں صدی میں جب اٹلی نے اس ملک پر قبضہ کیا تو اس کا نام بھی تبدیل ہو گیا اور وہ اسمارا سے اریٹیریا بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اٹلی اپنے مسائل سے دوچار ہوا تو اریٹیریا کو اس کے ہمسایہ ملک ایتھوپیا کو سونپ کر چلتا بنا، ایتھوپیا نے اسے اپنا حصہ بنا کر خود میں ضم کر لیا اور یہاں سے ایریٹرین عوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی۔

عیسٰی ایزا فورکی ان کا نیلسن منڈیلا اور EPLF (اری ٹیرین پیپلز لبریشن فرنٹ (ان کے لئے افریقن نیشنل کانگریس (ANC) جیسے بنے۔ اری ٹیریئن عوام کی آزادی کی طویل جدوجہد جاری رہی اور بالاخر 1991 میں ایریٹیرین لبریشن فرنٹ نے ایتھوپیا کو شکست دے دی اور آزادی حاصل کر لی لیکن بد قسمت ایریٹیرین عوام کو ایک دریا کے پار اتر کر ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑا۔ 1993 میں لبریشن فرنٹ کا لیڈر عیسٰی ایزا فورکی صدر بنا تو جنگ آزادی کا یہ ہیرو قہر کا دیوتا بن کر اپنی اصلیت دکھانے لگا اقتدار سنبھالتے ہی اس نے یہ اعلان کیا کہ اگلے تیس چالیس سال تک اری ٹیریا میں انتخابات نہیں ہوں گے اور تمام ریاستی طاقت کا منبع اور مرکز میری ذات ہی ہوگی۔

اس کے بعد عوام کے تمام بنیادی حقوق معطل کیے گئے اور شہری آزادی بزور قوت چھین لی گئی اس دوران اگر کسی نے معمولی سی مزاحمت یا احتجاج کیا تو اس کے سامنے صرف موت کا راستہ ہی بچا۔

صحافی اور قلم کار اری ٹیرین صدر عیسٰی ایزافورکی کے ان جابرانہ اور غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف حرکت میں آئے تو جبر کا اژدھا (اری ٹیرئن صدر) ان کی طرف پلٹا اور انہیں ہڑپ کرنے لگا اس نے ایک صدارتی حکم جاری کیا کہ جو بھی صحافی یا قلم کار مخالفت کرے گا تو عدالتی کارروائی یا ٹرائل نہیں ہوگا بلکہ صرف سزا سنائی جائے گی اور وہ بھی انتہائی سخت سزا۔ دو ہزار ایک میں اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور ملک بھر میں آزاد ئی صحافت پر نہ صرف پابندی لگا دی بلکہ ان اداروں سے وابستہ تقریبًا تمام صحافیوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، جہاں بہت سے صحافی مار دیے گئے۔

یو این انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کے اعداد و شمار کے مطابق درجن بھر پرائیویٹ ٹیلی کمیونیکیشن کے ادارے بند کر دیے گئے، اور صرف ایک ہی کمیونیکیشن کمپنی قائم کردی گئی جس کا نام ایری ٹیل سب کمیونیکیشن کمپنی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کمپنی مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے اور یہ کمیونیکیشن کا واحد گیٹ وے ہے یعنی مواصلات کے تمام ذرائع بشمول ٹیلی وژن، ریڈیو انٹرنیٹ اور موبائل فون اسی گیٹ وے سے گزرتے ہیں جہاں ان ذرائع کو سختی کے ساتھ چیک کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کسی پر معمولی سا شک پڑ جائے تو اسے عبرت کا نشان بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پورے اریٹیریا میں صرف ایک فیصد لوگوں کی رسائی انٹرنیٹ تک ہے اور یہ ایک فیصد لوگ بھی وہ ہیں جو یا تو اریٹیریا کے جابر حکمران عیسٰی ایزا فورکی کے قریبی ساتھی ہیں یا دوسرے سرکاری عہدیدار جبکہ ننانوے فیصد باقی ایریٹیرین عوام کو اس سہولت یعنی انٹرنیٹ کے استعمال سے جبرًا روکا گیا ہے تا کہ جابر حکمران اور نظام کے خلاف عوامی سطح پر رابطہ کاری اور موٹیویشن نہ ہو سکے۔

ان حالات سے تنگ یا خوفزدہ ہو کر بہت سے صحافی ملک چھوڑ گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں خود ساختہ جلا وطنی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ بعض سیاسی ورکر بھی چوری چھپے اریٹیریا سے نکل گئے ہیں لیکن یہ لوگ دوسرے قریبی ممالک میں بیٹھ کر اپنے اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ان جلاوطن صحافیوں نے ریڈیو براڈ کاسٹ کے ذریعے خبریں دینے کی ایک کامیاب کوششش ضرور کی مگر جوں ہی حکمران طبقے کو پتہ چلا تو فورًا اس کے ریڈیائی سگنل جام کر دیے گئے لیکن شدید خوف اور ریاستی جبر کے باوجود بھی یہ آزادی اظہار کے حامی اور جمہوریت پسند سر پھرے اس سرنگ میں اپنا سفر اس امید پر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں تو دوسرے سرے پر روشنی نظر آجائے گی۔
گویا اری ٹیریا کے جانباز بیٹے انتہائی مشکل ترین حالات میں بھی پسپا نہیں ہوئے اور ایک دلیر بانکپن کے ساتھ جبر کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں
کوئی دن جاتا ھے کہ وہ جمہوریت اور آزادی کا مشعل تھام لیں گے۔

رہا اریٹیریا کا جابر حکمران اور اس کی طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے غیر فطری اور ظالمانہ اقدامات تو ایسے ہتھکنڈوں سے کیا پہلے کیا کسی کو کامیابی ملی ہے جو اسے مل جائے گی؟
فقط اتنا ہوتا ہے کہ جبر اور جدوجہد کا دورانیہ تھوڑا سا بڑھ جاتا ہے. رکتا کم از کم برگز نہیں
اور پھر اکیسویں صدی تو غضب ڈھاتی ہوئی آئی ہے کیونکہ بات کرنے اور کمیونیکیٹ کرنے کے لئے ڈیجیٹل ارتقاء نے اتنے سارے دریچے کھول دیئے ہیں کہ گننا اور یاد کرنا تک مشکل ہے اور ہاں اگر ارادہ مضبوط اور جبر کے خلاف بات کرنا مقصود ہی ہو تو اسے روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی حد تک نا ممکن ہو جاتا ہے، کیونکہ آزادی کے متوالے اور جبر کے باغی ایک بار اٹھیں تو زبانیں کھینچنے اور قلم توڑنے سے بات کہاں بنتی ہے۔

ہم نے تو ایک صدی پہلے ہی رومالوں پر ریشمی کشیدہ کاری کو بولتے اور قیامت ڈھاتے دیکھا تھا۔ اب تو زمانہ بھی وہ نہیں رہا لیکن کیا کیجئے کہ طاقت کی فطرت ہی یہی ہے کہ اسے اپنی گٹھتی ہوئی طاقت کے علاوہ کچھ نظر آتا ھی نہیں حتی کہ پہاڑ جیسے حقائق بھی. اور یہی غفلت ہمیشہ اسے لے ڈوبتی ہے۔ تاریخ کا سبق تو بہرحال یہی ہے کہ جبر کی تاریک سرنگ کی دوسری سمت راستہ بھی ہے اور امڈتی ہوئی روشنی بھی!

لیکن تاریخ سے بے خبر لوگوں کی نفسیات اور حماقتیں ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہیں خواہ وہ براعظم افریقہ میں ہوں یا بر اعظم ایشیا میں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: