تقریبا 9 برس پہلے کی بات ہے ملک خداد پاکستان کو کئی بڑے بڑے چیلنج درپیش تھے۔ ان میں سے ایک بڑا چیلنج لوڈشیڈنگ کا تھا۔ عوام دن رات لوڈشیڈنگ کےعذاب میں مبتلا تھے موسم سرما ہوتا یا موسم گرما لوڈشیڈنگ کی عفریت نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ ہی نہیں اسکے ساتھ ساتھ گیس کی بڑھتی لوڈشیڈنگ نے بھی بری طرح سر اٹھایا ہوا تھا۔
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے صرف عام پاکستانی صارف ہی نہں بالکہ مینوفیکچرنگ انڈسٹری جو کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے وہ بھی بری طرح متاثر ہورہی تھی اسکے ساتھ ایک اوربہت ربڑا چیلنج دہشتگردی کی عفریت کا تھا جس نے پورے ملک کواپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔
2013 میں ملک میں عام انتخابات ہوئے اور سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا ایک نئی حکومت نے زمام اقتدار سنبھالا اور آتے ہی ان چیلنجز سے نبٹنےکا بیڑہ اٹھایا اسے اپنی ترجیح بنایا لیکن اسی دوران ملک میں ہنگامہ خیز صورتحال برپا کردی گئی نئی حکومت کے قیام کے صرف ایک برس کے بعد ہی دھاندلی کا الزام لگا کر حکومت کو چلتا کردینے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا جسکی پہلی صورت دھرنا نمبر 1 میں سامنے آئی یہ عین اسوقت ہوا جب چینی صدر کا دورہ پاکستان ہونا تھا لیکن چونکہ ہماری ترجیحات کی نوعیت ہی نرالی ہے اسلئے چینی صدر کے دورہ کی اہمیت کو پس پشت ڈال کر دھرنا کرنے اور کروانے کو فوقیت جانا گیا کیونکہ ہماری اپنی ترجیحات ہیں۔

اللہ اللہ کرکے دھرنا ختم ہوا حکومت نے ایک مرتبہ پھر اپنی توجہ بجلی اور گیس کی کمی کو پورا کرنے پر صرف کرنا شروع کی اور پھر سب نے دیکھا کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بدتریج کم ہونا شروع ہوگئی دہشتگردی کی عفریت پررفتہ رفتہ قابو پایا جانے لگا اور ساتھ میں سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جانے لگا لیکن ایک مرتبہ پھر ہماری اپنی نرالی ترجیحات نے جنم لے لیا اور ایک مرتبہ بھر دھرنا 1 والی کہانی دھرنا نمبر 2 کی صورت میں دوہرائی جانے لگی۔

خدا خدا کرکے یہ مرحلہ بھی ختم ہوا توعین اسوقت جب پاکستان میں بجلی کے کارخانے لگ رہے تھے معیشت کو کچھ سکون کا سانس نصیب ہورہا تھا گیس کی کمی کو پورا کیا جارہا تھا سی پیک پر عملی کام شروع ہوچکا تھا کہ اچانک پانامہ کے عظمیم الشان ڈرامہ کا آغاز ہوگیا جسکی زد میں تقریبا 400 پاکستانی آگئے لیکن چونکہ ہماری اپنی نرالی اور انوکھی ترجیحات ہیں ہمارے ترجیح ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی نہیں بالکہ منتخب وزرائے اعظم کو زیر کرنا ترجیح رہا ہے اسلئے ہم نے اپنی ترجیح کو عوامی اور ملکی ترجیح پر فوقیت دیکراسوقت کے وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ ڈرامہ کی آڑ میں گرانا ضروری سمجھا (یہ سب کیسے اور کیوں ہوا) وہ ایک الگ کہانی ہے۔
جب 2018 میں عام انتخابات ہوئے اور اسکے نتیجہ میں ایک نئی حکومت بنی یا بنوائی تک پاکستان کا جی ڈی پی 5.5 فیصد سے اوپر پہنچ چکا تھا لیکن چونکہ ہماری اپنی نرالی ترجیحات ہیں ہم نے اپنی نرالی ترجیح کو سامنے رکھ کرالیکشن رزلٹس کوسائنسی بنیادوں پرمینج کیا جس سے اپنی مرضی کی ایک نئی حکومت معرض وجود میں لائی گئی اور پھر سب نے دیکھا کہ اس نئی نرالی حکومت کے آنے کے بعد وہی جی ڈی پی جو 5.5 پر پہنچ چکا تھا وہ بدتریج تنزلی کی جانب گامزن ہوگا کیونکہ ہماری اپنی ترجیحات ہیں۔

اس نرالی حکومت کے آنے کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے آٹا چینی دالیں گیس پٹرول غرض ہر چیزکی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے لیکن اس جانب توجہ دینا اور عوام کو ریلیف دینا حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں اس کو تواپوزیشن خصوصا نواز شریف مریم نواز شہباز شریف اوردیگر لیڈران کو نیب اور دیگر اداروں کے ذریعہ سبق سکھانا ہے کیونکہ ہماری اپنی نرالی ترجیحات ہیں۔

گذشتہ حکومت کے دور میں ایل این جی کے بڑے بڑے پلانٹس لگائے گئے اور طویل مدتی معاہدے کیے گئے جن پر موجودہ حکومت نے آکر خوب تنقید کی اورقوم کو بتایا کہ پچھلی حکومت نے تو ملکی خزانے اور پیسے کیساتھ کھلواڑ کیا ہے اور بہت مہنگی گیس کے معاہدے کیے ہیں اور پھر سب نے دیکھا کہ اس حکومت نے گیس کے نئے معاہدے کیے اور وہ ایسے معاہدے تھے جنکی ملکی ایل این جی تاریخ میں کوئی مثال نہں ملتی جو تاریخ کے سب سے مہنگے ترین معاہدے تھے اور یہ سب کچھ اسلئے ہوا کیونکہ ہماری اپنی ترجیحات ہیں۔

بات یہاں پر رکی نہیں کورونا وائرس کا ڈیلٹا ویرینٹ جسکا گڑھ بھارت ہے جو بھارت سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بھارت کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جسکی وجہ سے بیرونی ممالک خصوصا برطانیہ اور یورپ نے بھارت کو ریڈ لسٹ میں ڈال دیا۔
واضع رہے کہ پاکستان میں ڈیلٹا وائرس اسوقت تک نہیں پہنچا تھا اور اگر تھا بھی تو اسوقت اکا دکا کیسز تھے لیکن ان ممالک نے بھارت کیساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ریڈ لسٹ میں ڈال دیا چاہیے تو یہ تھا پاکستانی حکومت اور دفتر خارجہ اپنی سفارتکاری خوبیوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کواس لسٹ میں یا تو جانے ہی نہ دیتے یا پھر اس سے نکلواتے لیکن چونکہ یہ ہماری ترجیح ہی نہں تھی ہماری تو اپنی علیحدہ نوعیت کی ترجیحات ہیں جن میں کشمیر الیکشن کو کیسے مینج کرنا سابقہ حکومتوں کو ہر کام کا مورد الزام ٹھہرانا خصوصا مسلم لیگ ن اوراس کی لیڈرشپ کو کیسے قابو کرنا ہے ان پر نیب کا کونسا کیس بنانا ہے نواز شریف کیخلاف کونسا نیا محاذ کھولنا ہے مریم نواز کیخلاف کونسا نیا کیس بنانا ہے شہباز شریف کو دوبارہ نیب کے عقوبت خانے میں ڈالنا ہے وغیرہ وغیرہ چونکہ ہم نرالے ہیں اسلئے ہماری اپنی نرالی ترجیحات ہیں ہمارا ریڈ لسٹ میں پاکستان کی شمولیت سے کیا لینا دینا۔
ابھی حالیہ دنوں میں کرونا وائرس سے متاثر ممالک پر سفری پابندیوں بارے نئی لسٹ اپ ڈیٹ ہوئی ہے اس میں بھارت جہاں سے ڈیلٹا ویرینٹ کا آغاز ہوا اور جہاں کئی ملین لوگ اسکا شکار ہوئے اسکو ریڈ لسٹ میں سے نکال کر ایمبر لسٹ میں ڈال دیا گیا لیکن پاکستان جہاں ڈیلٹا ویرینٹ اللہ کے فضل سے بہت کم دیکھنے میں آیا اسکو ریڈ لسٹ میں ہی رکھا گیا جو پاکستانی حکومت اور فارن آفس کی شاندار سفارتکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
