جب سے میرے کپتان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے اس وقت سے لے کر آج تک پاکستان کی رفتار تنزلی کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ میرے کپتان نے اپنے جوش خطابت میں پاکستان کے اندر نوے دن میں تبدیلی لانے کا اعلان کیا، جب یہ الفاظ میرے کانوں تک ٹکرائے تو میں اپنا ہوش کھو بیٹھا اور جوش میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ واہ کپتان! ایک توں ہی سچا لیڈر ہے باقی سب کرپٹ اور مال کمانے والے لوگ ہیں لیکن جب میری ہوش ٹھکانے آئی تو اس وقت لمحات اور جذبات بدل چکے تھے اور میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ؛ واہ کپتان! ہماری امیدوں سے کھیل کر توں کر رہا ہے پاکستان کا نقصان۔
اس کے علاوہ جب دھرنے کے دنوں میں میرے کپتان نے اپنے جوش خطابت میں یہ اعلان کیا کہ نوجوانوں! میرے پاس دو سو بندوں کی ٹیم بالکل تیار ہے، آپ نے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینا ہے اور دیکھنا کہ پاکستان کتنی تیزی کے ساتھ ترقی کی بلندیوں کو چھوتا، ہم یہ الفاظ سن کر ایک دفعہ پھر اپنے کپتان سے امید لگا بیٹھے کہ واہ کپتان! ایک توں ہی سچا لیڈر ہے جو پاکستان کو کرپشن سے پاک اور ترقی کی طرف لیجا سکتا ہے لیکن جب ہمارے ہوش ٹھکانے آئے تو ہمیں پتہ چلا کہ وہی دو سو بندوں کی ٹیم نے اپنے ابتدائی دنوں میں ادویات میں اربوں روپے کا ڈاکہ مارا، پھر گندم اور آٹے میں پاکستانی قوم کو لوٹا، پھر چینی کی قیمتیں بڑھا کر اپنی اے ٹی ایم مشینوں کو اربوں روپے سے نوازا، پھر رنگ روڈ راولپنڈی اسکینڈل میں اربوں روپے کا ہیر پھیر کرکے انٹرنیشنل فنانسرز کو نوازا، پھر پاکستانی قوم کو آرام کی نیند سلا کر پاپا جونز پیزے کی اربوں روپے کی فرنچائز کھولیں، پھر پاکستان پوسٹ آفس اور حبیب بینک کا خفیہ معاہدہ کرکے 118 ارب روپے کا غیر قانونی معاہدہ کیا، پھر وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کرکے مہنگائی کم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، یہ سب حالات جاننے کے بعد میرے دل نے کہا کہ اے کپتان! توں پاکستان کا کر رہا ہے نقصان۔
میرے کپتان نے جوش خطابت میں اعلان کیا کہ میں پاکستان کے غریب طبقے کو پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں دوں گا اور پاکستان میں نوکریاں اتنی بڑھ جائیں گی کہ باہر سے لوگ نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے، ہم نے پہلے کی طرح پھر اپنے کپتان سے امید لگا لی، لیکن جب کپتان حکومت میں آئے تو غریبوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کی بجائے پہلے سے موجود لوگوں کے گھروں کو مسمار کر کے انکو بےگھر کر دیا، ایک کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے کاروبار ٹھپ کرکے ایک کروڑ ملازمین بیروزگار کر دیے اور باہر سے لوگ پاکستان نوکریاں کرنے کی بجائے بہت سے کاروباری شخصیات اپنا کاروبار اٹھا کر بنگلہ دیش میں لے گئے، جب ہم نے اپنے کپتان کی ملک دشمن پالیسیوں کو دیکھا تو میرے دل نے کہا کہ سنو کپتان! تم کر رہے ہو پاکستان کا نقصان۔
میرے کپتان نے دھرنے کے دنوں میں اعلان کیا کہ ن لیگ کی حکومت قوم کو مہنگی بجلی دے رہی ہے، اربوں روپیہ ٹیکس کا اکٹھا کر کے ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں، پٹرول 45 روپے والا 100 روپے میں دے رہے ہیں، ایل پی جی، سبزی، چکن، دال، چاول اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاء پر زائد ٹیکس لگا کر بیچتے ہیں جس سے پاکستانی قوم کی جیبوں سے اربوں روپیہ نکال کر ن لیگ کی حکومت اپنی جیبیں بھر رہی ہے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم نے اپنے کپتان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرلیا لیکن جب ہماری آنکھیں کھلی تو پتہ چلا کہ 45 والا پٹرول بجٹ پیش ہونے کے بعد بھی تین دفعہ بڑھا کر 120 روپے تک پہنچا دیا گیا ہے، ایل پی جی، سبزی، چکن، دال، چاول اور دیگر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کو مہنگا کرکے پاکستانی قوم کے منہ سے روٹی کا ٹکڑا چھین لیا ہے، جب یہ منظر میری آنکھوں نے دیکھا تو میرے دل سے آواز آئی کہ اے کپتان! مہنگائی سے مار رہا ہے توں پاکستانی عوام۔
میرے کپتان نے اپنے جوش خطابت میں یہ اعلان کیا کہ ن لیگ کی حکومت انڈسٹریل اسٹیٹ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے جس سے بہت سی فیکٹریاں بند ہوکر بیرون ملک چلی گئی ہیں اور قوم بیروزگار ہوتی جا رہی ہے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم نے خوشی خوشی اپنے کپتان پر اعتماد کیا کہ واہ کپتان! توں نے آج ہمارے دل کی بات کر دی ہم آپ پر آندھا اعتماد کرتے ہیں، جب ہم نے اپنے آندھے اعتماد کو بحال کیا تو دیکھا میرے کپتان نے فیکٹریوں پر لا محدود ٹیکسوں کے انبار لگا کر انڈسٹری کا پہیہ جام کر دیا اور کاروباری شخصیات نے اپنے کاروبار بند کرکے ملازمین کو فارغ کر دیا جس کے بعد ملازمین در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے اور جب ہم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تو میرے دل سے درد بھری آواز سے نکلا کہ اے کپتان! توں کاروبار بند کرکے مار رہا ہے غریب عوام۔
میرے کپتان نے اپنے جوش خطابت میں اعلان کیا کہ پاکستانی میڈیا اور صحافی بڑی مشکل کے ساتھ پاکستانی قوم کی آواز کو دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں اور میں پاکستانی صحافیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ن لیگ کی ہر ناکامی کو میڈیا پر نشر کرتے ہیں، ہمیشہ کی طرح میرے صحافیوں نے میرے کپتان پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن جب کپتان حکومت میں آیا تو دیکھا تمام میڈیا ہاؤسز اور صحافی حضرات میرے کپتان کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں، بہت سے صحافیوں کو زبردستی ٹی وی سکرینوں سے ہٹایا گیا ہے، بہت سے صحافیوں کی زبان بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بہت سے صحافیوں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروائی گئی ہے، بہت سے صحافیوں کو اغواء کیا گیا ہے اور انٹرنیشنل تنظیمیں میرے کپتان کو دہشتگرد بول رہی ہیں، اور ہم سب یہی الفاظ دہرا رہے ہیں کہ اے کپتان! توں کر رہا ہے پاکستان کو بدنام۔
میرے کپتان نے جوش خطابت میں اعلان کیا کہ میرے ملک کے ینگ ڈاکٹرز کیساتھ ن لیگ کی حکومت انتقامی کاروائیاں کر رہی ہے، ینگ ڈاکٹرز کو جو سہولیات فراہم کرنی چاہیے تھیں وہ بھی نہیں دی جا رہیں جس پر پاکستان کے ینگ ڈاکٹرز پھولے نہ سمائے اور ادویات کی پرچی کے اوپر ”بلے پر نشان“ لگانے کا بولتے رہے اور ڈاکٹر یاسمین راشد پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز کی سہولت کاری کرتی رہیں لیکن جب کپتان حکومت میں آیا تو ینگ ڈاکٹرز نے دیکھا کہ ہمارا کپتان تو ہمارے خلاف ہی انتقامی کاروائیاں کر رہا ہے اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا ہے جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز نے پریس کانفرنسز بھی کیں جس میں وہ اپنی کپتان کو ووٹ دینے کی غلطیوں کو دہراتے رہے اور کہتے رہے اے کپتان! چھوڑ دے توں کوکین کی جان۔
میرے کپتان نے جوش خطابت میں کہا کہ میں گرین پاسپورٹ کی عزت بحال کرواؤں گا، میں نواز شریف کی طرح کشکول لیکر نہیں پھیروں گا، میں پاکستان کی ایک عزت بناؤں گا اور دنیا پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور جب ہم نے یہ بات سنی تو ہم نے پھر کہا کہ واہ کپتان! توں واقع ہی پاکستان کا درد رکھنے والا لیڈر ہے لیکن جب ہم نے حقیقت دیکھی تو پاکستان کے پاسپورٹ کی عزت پہلے سے ہی کمزور ہوتی جارہی ہے، دنیا پاکستان کو ایک دہشتگرد کے طور پر جاننا شروع ہوگئی ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام لوگوں کے ہاتھ چڑھ گئی ہے اور کوئی ملک ہمیں منہ تک لگانے کے لیے تیار نہیں ہے، قومی سلامتی کے مشیر امریکی صدر جو بائیڈن کی ایک کال کے لیے تڑپ رہے ہیں، اقوام متحدہ افغانستان میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ہمیں مدعو کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، جب ہم نے اپنے ملک کی بڑھتی بدنامی کو دیکھا اور ہم یک زباں ہو کر کہا کہ اے کپتان! توں چھوڑ کیوں نہیں دیتا کرسی کی جان۔
پاکستان کی نوجوان نسل کی یہی غلطی رہی کہ وہ میرے کپتان کی باتوں میں آگئی اور میرے کپتان کو اتنا سنجیدہ لے لیا کہ اب صرف پاکستان کی واحد امید میرے کپتان عمران خان ہوں گے لیکن نوجوان نسل کی امیدوں پر میرے کپتان نے اس طرح پانی پھیرا جب سیلاب کے دنوں میں پانی کسانوں کی زرعی پیداوار کو نقصان پہنچاتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے میری پاکستانی قوم سے درخواست ہے کہ وہ خود اور اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سبق دے کہ میرے کپتان کی باتوں میں آکر مستقبل میں کبھی اپنے ووٹ نہ دیں ورنہ میرا کپتان اس پاکستان کا پہلے سے بھی زیادہ برا حال کر دے گا۔
The contributor, Mian Mujeeb-ur-Rehman, is a chemical engineer who doubles as a columnist, having conducted research and crafted blogs for the past several years as a personality for various newspapers and websites throughout Pakistan.
Reach out to him @mujeebtalks.